پروفیسر محمد ظفرالدین ایک اچھے استاد، عمدہ مقرر، بہترین مترجم، اعلیٰ درجے کے منتظم، ایک ذمہ دار عہدہ دار اور ہم درد انسان تھے

۔ بازگشت آن لائن ادبی فورم کی جانب سے پروفیسر ظفرالدین کی یاد میں تعزیتی نشست حیدرآباد، 11 اپریل(پریس نوٹ)پروفیسرمحمد ظفرالدین ایک اچھے استاد، عمدہ مقرر، بہترین مترجم، اعلیٰ درجے کے منتظم اور ایک ذمہ دار عہدہ دار تھے۔ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ وہ انتہائی سنجیدہ، بردبار، معاملہ فہم اور محنتی انسان تھے۔ ان خیالات کا اظہار بازگشت آن لائن ادبی فورم کی جانب سے منعقدہ پروفیسر ظفرالدین مرحوم کی تعزیتی نشست میں مختلف دانشوروں نے گوگل میٹ پروگرام میں کیا۔پروفیسر بیگ احساس، نامور افسانہ نگار، سابق صدر شعبہ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد اور بازگشت کے سرپرست نے صدارتی تقریر میں کہا کہ پروفیسر ظفرالدین، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر، پروفیسر شمیم جے راج پوری کے ساتھ حیدر آباد آئے تھے۔ اس وقت یونیورسٹی کاایک کیمپ آفس تھا۔ محمد ظفرالدین نے اسسٹنٹ پی آر او کی حیثیت سے یونیورسٹی کا نام گھر گھر پہنچایا۔ یونیورسٹی کی صورت گری میں محمد ظفرالدین کا اہم رول ہے۔ انھوں نے بہت جلد ترقی کی منزلیں طے کیں اورلوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا۔ وہ بہت کم عمر لکھوا کر لائے تھے۔ اس لیے سارے کام جلد نمٹا لیے۔ پروفیسر محمد ظفرالدین کے چھوٹے بھائی پروفیسر شہزاد انجم، صدر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ پھر دلی آ گئے وہ غربت، پریشانیوں اور الجھنوں سے بھرا دور تھا۔ بھائی نے ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حیدرآباد آنے کے بعد ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ حیدرآباد کے لوگوں نے انھیں بہت پیار دیا۔ وہ یہیں پیوند خاک ہوئے۔ وہ کنبہ پرور تھے اور خاندان کے غریب لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتے تھے اور انھوں نے جو کچھ حاصل کیا اپنی محنت اور لگن سے کیا۔ میں نے اپنے بھائی کو کھو دیا یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کہا کہ مرنے والے مرتے ہیں فنا نہیں ہوتے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ محمد ظفرالدین انسانی تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ان کا بڑا کارنامہ رسالہ ”ادب و ثقافت“کا اجرا ہے۔ انسان کے اصل جو ہر افراد خاندان کے ساتھ اس کے رویے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ خاندان کے سربراہ ہونے کے باوجود سب کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات اور ہندوستانیات و صدر شعبہ اردو مانو نے کہا کہ پروفیسر محمد ظفرالدین کی اچانک موت کسی برقی جھٹکے کی طرح لگی۔وہ بہت خلیق، متواضع، خوش اخلاق وخوش گفتار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے پاس ایک رکھ رکھاؤ اورٹھہراؤ کا قرینہ تھا۔ ان کی رحلت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ ڈاکٹرسید مصطفیٰ کمال مدیر ”شگوفہ“ حیدر آباد نے کہا کہ یونیورسٹی کے استحکام کے لیے انھوں نے خود کو وقف کر دیا تھا۔ کوئی کام انھیں سونپا جائے اسے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اس کے بارے میں ہر طرح سے غور کرکے اسے بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ پروفیسرپی۔ فضل الرحمن نے کہا مانو کے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہم ساتھ تھے۔ یونیورسٹی کی ترقی کے ساتھ ہم لوگ بھی ترقی کرتے گئے۔ یونیورسٹی کا مینڈیٹ مشکل تھا۔ ظفرالدین، پروفیسر شمیم جے راج پوری کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کرتے تھے۔ یونیورسٹی کی تشہیر میں ان کا اہم رول ہے۔پروفیسر فاروق بخشی نے کہا کہ ہم ایک ہی بلڈنگ کے ایک ہی فلور پر کام کرتے تھے۔ ظفرالدین کی مقبولیت پوری اردو دنیا میں تھی۔ اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی، ڈاکٹر شمس الہدیٰ،ڈاکٹر محمود کاظمی، ڈاکٹر احمد خاں، ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر بی۔بی رضا خاتون، ڈاکٹر کہکشاں لطیف نے بھی تاثرات پیش کیے۔ مجلس انتظامیہ کی رکن ڈاکٹر گل رعنانے اس تعزیتی نشست کی نظامت کی اور پروفیسر محمد ظفرالدین کا تعارف بھی پیش کیا۔ پروگرام کے آخر میں اظہار تشکر کیا۔پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم استاد شعبہئ اردو مانو تھے۔ ڈاکٹر محمد جابر حمزہ استاد شعبہئ اردو نے معاونت کی۔ بازگشت کے تکنیکی مشیر جناب غوث ارسلان نے تکنیکی تعاون پیش کیا۔ اس نشست میں ملک و بیرون ملک کے شایقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
جدید تر اس سے پرانی