ڈجیٹل ادب پر ہفت روزہ کورس

علی گڑھ، : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ انگریزی نے گلوبل انیشیئیٹیو فار اکیڈمک نیٹ ورکس (گیان) کے تحت ’ڈجیٹل لٹریچرس اینڈ لٹریچرس اِن دَ ڈجیٹل‘ کے عنوان سے ایک ہفت روزہ کورس کا اہتمام کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف برجن، ناروے کی ڈاکٹر ایسٹرڈ اِنسلین نے ڈجیٹل میڈیا اور ادب کے مختلف پہلوو¿ں پر روشنی ڈالی اور روایتی ادب کے حوالے سے اس کی انفرادیت بیان کی۔ ڈاکٹر ایسٹرڈ نے ڈجیٹل میڈیا میں افسانوں اور شاعری، ادبی کھیلوں، پری ویب ای- لٹریچر، میڈیم کے مخصوص بیانیات اور ملٹی موڈل تجزیہ، ای- ادب کے تئیں نسائیت اور اطلاقی طریق ہائے فکر اور ڈجیٹل ببلیوتھیریپی جیسے عناوین پر گفتگو کی۔ انھوں نے کورس کے مختلف سیشن میں ڈیجیٹل ہیومینٹیز اور نئے ادبی پریکٹیسز کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر ایسٹرڈ نے کہا ” موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف قسم کا ڈجیٹل ادب سامنے آرہا ہے، جس میں تکنیکی ترقیوں کے ساتھ لگاتار وسعت ہورہی ہے۔ مصنفین اور مو¿لفین کمپیوٹر کے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پیچیدہ موضوعات پر نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تخلیقات پیش کررہے ہیں“۔ ڈاکٹر کوابینا-اوپوکو اگیمانگ (یونیورسٹی آف گھانا) نے ’افریقی نظریہ سے الیکٹرانک ادب کی تشکیل: گھانا کا نقطہ نظر‘ موضوع پر اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح افریقی ادب ڈجیٹل ٹکنالوجی کو اپنے تخلیقی عمل میں شامل کر رہا ہے، اور الیکٹرانک ادبی تنقید میں ،غالب مغربی نقطہ نظر سے الگ ہٹ کر مقامی نقطہ نظر کو شامل کیا جارہا ہے۔ انھوں نے مختلف نظموں اور موبائل ویڈیو گیمز کی مثالیں دیں جو افریقی الیکٹرانک ادب کو تشکیل دیتی ہیں۔ پروفیسر سوگتا بھادوری (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی) نے بھی اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ پروفیسر سید محمد ہاشم، پروفیسر محمد جہانگیر وارثی (مقامی کوآرڈینیٹر، گیان کورسز-اے ایم یو اور چیئرمین، شعبہ لسانیات)، پروفیسر عاصم صدیقی (چیئرمین، شعبہ انگریزی)، پروفیسر ایم رضوان خان اور پروفیسر سیمین حسن نے بھی ڈجیٹل لٹریچر کے مختلف عناوین پر خطاب کیا۔ پروفیسر کلیئر جوبرٹ (یونیورسٹی پیرس) نے ڈیجیٹل ہیومینٹیزکے ارتقاءپر گفتگو کی۔ پروفیسر محمد جہانگیر وارثی نے اختتامی کلمات ادا کیے اور مدیحہ نعمان نے شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شرجیل چودھری اور علیشا اِبکار نے مشترکہ طور سے کی جب کہ ڈاکٹر ادیبہ فیاض نے 70 مختلف اداروں کے دو سو سے زائد شرکاءکی آراءپیش کیں۔
جدید تر اس سے پرانی