پسماندہ کارڈ: کون حامی, کیوں مخالفت اور کیا ہے مقصد

لکھنؤ۔ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکمران جماعت بی جے پی نے پسماندہ مسلم کارڈ چلا ہے. وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان کے بعد یو پی کے دارالحکومت لکھنو میں سولہ اکتوبر کو بی جے پی کی جانب سے پسماندہ مسلم اجلاس کا بھی انعقاد کیا گیا. پسماندہ مسلم اجلاس کے بعد سے سیاست گرم ہو گئی ہے" پسماندہ مسلمانوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم بی جے پی کی اسپیشل کو وہ اپنے لئے مفید قرار دے رہی ہیں. وہ بھی جے پی مخالف پارٹیوں کو گھورتے ہوئے بی جے پی کے پسماندہ مسلم اجلاس پر سوال کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں. وہی پسماندہ مسلمانوں کی لڑائی لڑنے والی کوئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو بی جے پی کی پہل کا استقبال تو کرتی ہیں لیکن وہ اب تک کہ بی جے پی کے رخ کی وجہ سے بجلی پر مکمل طور سے اعتبار نہیں کر پا رہی. دراصل مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کا اب تک کا جو رو رہا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے ہند اور زکوٰۃ کی اس کی سیاست میں مسلموں کی کیا جارہا ہے وزیر ہے اس لئے سیاسی اور سماجی ماہرین بھی بی جے پی کی نیت پر شک کر رہے ہیں سماجی کارکن اور ساٹھ برس سے سیاست کی نوعیت سمجھنے والے راجہ شرما کو حالات کے مطابق یہ تو محسوس ہو رہا ہے کہ پسماندہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ تو کرسکتے ہیں لیکن بی جے پی میں ان کو مکمل حصّہ داری مل جائے گی اس پر انہیں یقین نہیں ہے. بہرحال پسماندہ مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے بی جے پی نے کارڈ تو چلا ہے دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ پسماندہ کارڈ سے اسے مسلمانوں کی کتنی حمایت حاصل ہوتی ہے اور پسماندہ مسلمانوں کی حمایت کے بعد وہ اپنے قدیمی سیاست میں کس طرح توازن بناتی ہے.
جدید تر اس سے پرانی