نبیؐ سے نکاح کے وقت سیدہ عائشہؓ کی عمر فطرت کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ عین فطرت کی ترجمانی ہے: مولانا آزاد بلگرامی
نئی دہلی:
مولانا انیس احمد قاسمی بلگرامی نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ 9-8 سال کی عمر میں لڑکی کا بالغہ ہو جانا تعجب خیر امر نہیں، اس لیے نبیؐ اور حضرت عائشہؓ کے نکاح پر انگشت نمائی کسی بھی زاویے سے درست نہیں ہو سکتی۔ مشرقی دہلی کی عیدگاہ جعفر آباد ویلکم میں تیئیسویں 15 روزہ اجلاس سیرت مصطفےٰ کی بارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ دعوی کیا ہے۔
پندرہ روزہ اجلاس سیرت مصطفےٰ کے واحد خطیب معروف عالم دین مفسر قرآن مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی نقشبندی مجددی نے سیدہ عائشہؓ کی عمر بوقت نکاح کے موضوع پر تحقیقی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1200 سال تک اس نکاح پر کسی نے انگشت نمائی نہیں کی۔ بیسویں صدی میں کچھ لوگوں نے سیدہ عائشہ کی عمر کو عنوان بنا کر ایک لایعنی بحث چھیڑ دی۔ مولانا بلگرامی نے مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے تناظر میں بتایا کہ کسی مذہب میں اس عمر میں شادی کو فطرت کے ساتھ جنگ قرار نہیں دیا گیا۔
مولانا بلگرامی نے منوسمرتی کی اس طباعت کے حوالے سے، جسے کرپارام شرما نے ویدک دھرم پریس دہلی سے شائع کیا ہے، اس کے باب 9 آیت 94 کے حوالے سے بتایا کہ اس دھرم شاستر میں لڑکی کی شادی کی عمر آٹھ سال بیان کی گئی ہے۔ مولانا بلگرامی نے دیگر تاریخی حوالوں سے بھی ثابت کیا کہ آٹھ نو سال کی عمر میں لڑکی کا بالغہ ہو جانا کوئی تعجب خیر امر نہیں ہے۔ اس لیے نبیؐ اور حضرت عائشہؓ کے اس نکاح پر انگشت نمائی کسی بھی زاویے سے درست نہیں ہو سکتی۔
مولانا بلگرامی نے کچھ مفکرین اور دانشوروں کا نام لیے بغیر ان کے افکار اور نظریات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے طرز استدلال سے مزید بحثیں چھڑ گئی ہیں اس لیے بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، سیرت ابن اسحاق، مسند الامام احمد بن جنبل وغیرہ میں جو تشریحات 6 اور 9 سال کی موجود ہیں انہیں بلاتامل تسلیم کر لینا چاہئے۔ مولانا بلگرامی نے مشکوٰة کے اسماء الرجال میں سیدہ عائشہؓ کے ترجمہ سے بھی ثابت کیا، اس میں 6 اور 9 سال کی ہی صراحت موجود ہے۔ مولانا بلگرامی نے دانشوروں کا علمی تعاقب بھی کیا جنہوں نے لفظ عشر کے غائب ہونے کی بات کہی ہے۔
مولانا بلگرامی نے اعداد کے سلسلے میں عربی قواعد کو پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تصور ہی غلط ہے کہ محدثین سے سہو ہو گیا اور وہ عشر لکھنا بھول گئے۔ اسی طرح مولانا بلگرامی نے لفظ نساء اور میثاق غلیظ کے تعلق سے نہایت علمی انداز میں وضاحتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ عصر حاضر میں اس موضوع کو زیر بحث لانا اس وجہ سے ضروری ہو گیا کہ بعض لوگوں نے 9 سال کی عمر کو موضوع بنا کر نبی کی شان میں گستاخی کی ہے، اس لیے حقیقت کا اظہار ضروری ہے۔
مولانا بلگرامی نے متعدد مذاہب کے رہنماؤں کے بارے میں ثابت کیا کہ ان کی شادی بھی اسی عمر میں ہوئی تھی، لہٰذا صرف اسلام کے پیغمبر پر ہی انگشت نمائی کیوں کی جاتی ہے؟ اجلاس میں مولانا محمد اسعد، مفتی فہیم، مولانا انیق اختر، مولانا افتخار نعمانی، حاجی اقبال احمد، حاجی محمد غالب انصاری، حاجی محمد ناصر، حاجی محمد یاسین، حاجی ساجد علی خان، حاجی عاقل خان، سید فراق حسین، محمد سلمان آزاد، حاجی محمد ادریس، حاجی نایاب، نعمان احمد، نعیم احمد کے علاوہ بڑی تعداد میں سامعین نے شرکت کی۔ رات دیر گئے مولانا بلگرامی کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔
قاری راحت علی غازی آباد کی صدارت میں منعقدہ اس نشست کی نظامت کے فرائض مولانا محمد طاہر قاسمی نے انجام دیے۔ اجلاس کا آغاز شیخ احمد جمیل مدنی کی تلاوت اور عبدالکریم کی نعت سے ہوا۔