مجاز اس روشن ستارے کی مانند تھے جو چند لمحوں کے لئے اپنی شعلہ افشانیوں کے ساتھ ابھرا اور زمانے کو منور کر گیا : ڈاکٹر سیدہ کائنات
مجاز کی یوم پیدائش پر ادیبوں کا اظہار خیال
ردولی، اجودھیا : مرکز ادب کے زیراہتمام اسرارالحق مجاز کی یوم پیدائش پر ردولی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جسکی صدارت ماسٹر رعب علی نے کی۔
ڈاکٹر سیدہ کائنات نے مجاز کی شخصیت اور شاعری کو موضوع بناتے ہوئےکہا کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہر ملک اور زمانے میں ایسی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں۔ جن میں خدا داد صلاحیتیں ہوتی ہیں یہ صلاحیت انسان کے اندر فتری طور پر پیدا ہوتی ہے، اور بلاشبہ اپنے جہد مسلسل اور کاوشِ پیہم سے کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو مستفید کرتی ہیں ۔ اسرار الحق مجاز کا نام بھی انھیں شخصیات میں ممتاز اور نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ وه خوبصورت سجیلے اور شرمیلے ترقی پسند فکر کے حامل نوجوان تھے۔ اس دور میں ان کے ترقی پسند اشعار تمام لڑکے لڑکیوں میں بے حد پسند کئے جاتے تھے اور پھر ان کی نظم آوارہ " کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ مجاز کی شاعری میں برسات کے دن کی سکون بخش تازگی اور بہار کی رات کی گرمجوش تاثیر آفرینی ہے۔ رومانس ان کی فکر کا محور ہے سچ تو یہ ہے کہ رومانس کے ساتھ ساتھ جتنی تڑپ مجاز کی شاعری میں پائی جاتی ہے وہ شائد ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوئی ہو۔ اور اس کے ساتھ ہی جتنی کم عمری میں وہ لکھنو اور علی گڑھ کےمشاعروں کی زینت بنے وہ بھی ان کی انفرادیت ہے ۔ مجاز بڑے زندہ دل اور جملہ بندی میں بھی مہارت رکھتے تھے، در حقیقت وہ اردو شاعری کا ایک ایسا روشن ستارہ تھے جس نے بہت مختصر مدت میں اردو شاعری میں وہ مقام حاصل کیا جو رہتی دنیا تک ایک نظیر رہے گا ۔ مجاز اندھیری رات کے مسافر تھے وہ اس روشن ستارے کی مانند تھے جو چند لمحوں کے لیے اپنی تابانیوں اور شعلہ افشانیوں کے ساتھ اُبھرا ۔ اور اپنے نُور سے زمانے کو منور کر دیا۔
مشہور افسانہ نگار عطیہ پروین نے کہا کاش اسرارلحق مجاز کو موت نے کچھ اور مہلت دی ہوتی یا اس ظالم شۓ نے ان کو کچھ دن اور جینے کا موقعہ دے دیا ہوتا تو کچھ اور جگمگاتے موتی اردو کے دامن میں آ جاتے مگر افسوس اس بےدرد نے ایک روشن چراغ کو ہم سے چھین لیا۔ لیکن اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے
ان کی شاعری سیدھی دل میں اتر کر اپنا گھر بنا لیتی ہے مجھے ان کے کچھ اشعار بیحد پسند ہیں،جب اردو ادب کے اس ستارے کی یاد آتی ہے تو اپنی ڈاٸری دیکھ لیا کرتی ہوں۔ اور کچھ اشعار پڑھ کر سکوں محسوس کرتی ہوں۔
چھلکےتیری آنکھوں سےشراب اور زیادہ
مہکیں تیرے عارضی کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زور شباب اور زیاہ
یوں تجھ کو اختیار ہے تاثیر دے نہ دے
دست دعا ہم آج اٹھاۓ ہوۓ تو ہیں ۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے ۔
اور ان کی شہرہٕٕ آفاق نظم کیا کہنا
شہر کی رات اور ناشادو ناکارہ پھروں
جگ مگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مار ا پھروں
اے غم دل کیا کروں اۓ وحشت دل کیا کروں
مجاز کا جدا انداز انھیں ہمیشہ زندہ رکھےگا۔
مرکز ادب کے صدر،ادیب شاہدصدیقی نے اسرارالحق مجاز کے اس انداز سے بھی روشناس کرایا جو انھیں اپنے ہم اثر شعراء سے جدا کرتا ہے۔مجاز ہی نے انقلابی رنگ کو رومانی انداز میں پیش کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ لکھا جس پر ردولی کے لوگوں کو ہمیشہ مخر رہیگا۔
'یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں' جو آج بھی مخصوص موقعوں پر پڑھا جاتا ہے۔
معروف شاعر کاوش ردولوی نے کہا مجاز نے عمر کم پائی لیکن ان کو شہرتیں بہت زیادہ حاصل ہوئیں۔
مجاز ایک ایسے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جنھیں ہر شہر اپنا کہہ کر فخر کرتا ہے۔ اسرارالحق مجاز کی پیدائش ردولی کے نبی خانہ میں ہوئی انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سےاعلیٰ تعلیم حاصل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان اردو پر مثل آفتاب جگمگانے لگے
جانے کس بات پر وہ ناراض ہو کر ردولی سے لکھؤ چلے گئے اور آخری سانس تک وہیں رہے،
انھیں مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر ۔
اے مجاز اتنا بھی گھر سے نہیں روٹھا جاتا
آؤ چلتے ہیں نبی خانے غزل کہتے ہیں
بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔