ر
*اردو مذہبی زبان نہیں، ہماری زبان ہے: سوامی مراری داس*
* ہمارے معاشرے کو خاص طور پر خواتین نے ایک راہ دکھانے کا کام کیا۔ خواتین کو جب بھی معاشرے میں موقع ملا ہے انہوں نے اپنا پرچم بلند کیا ہے۔ بیگم حضرت محل اپنے دور کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے عوام کے لیے قربانی دی۔
لکھنؤ 20 اکتوبر 2022
اترپردیش اردو اکادمی کے زیراہتمام جمعرات کو اردو اکادمی کے آڈیٹوریم میں "ایک شام بیگم حضرت محل کے نام" کے عنوان پر ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرہ کا آغاز سید عرفان کچھوچھوی نے تلاوت قرآن سے کیا۔ پروگرام میں سوامی مراری داس جی نے کہا کہ اردو زبان کا کوئی ایک مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ اردو کو عام آدمی کی زبان ہی رہنے
دیا جائے۔
سوامی مراری داس جی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ شہیدوں کو سلام کرنے سے ہمارے دلوں میں احساس پیدا ہوتا ہے۔ اودھ کے نواب نے ایک مولانا کے کہنے پر ایودھیا پر حملہ کرنے کے لیے فوج بھیجی تھی لیکن بیگم حضرت محل کو صحیح اطلاع دینے کے بعد نواب صاحب نے جنگ روک دی۔ مراری داس جی کہتے ہیں کہ بادشاہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ اس کا مذہب ملک کی محبت، انصاف اور ترقی ہے۔ بیگم حضرت محل نے ہندو بادشاہوں کے ساتھ اتحاد کر کے ملک کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پیغمبر اسلام کا حکم ہے کہ بیٹیوں کی عزت کی جائے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بیٹیوں کی عزت کی جاتی ہے۔ بیگم حضرت محل نے کہا کہ انگریز مجھے کبھی گرفتار نہیں کر سکیں گے جب تک میں زندہ ہوں اور انہوں نے اپنی زندگی کا آخری وقت نیپال میں تنگ حالی میں گزارا۔ مراری داس جی نے کہا کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے، اردو یوپی کی مادری زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو عام آدمی کی زبان ہی رہنے دیا جائے۔ اردو کوئی مذہبی زبان نہیں، ہماری زبان ہے۔ اردو بھی "دیوناگری رسم الخط" میں لکھی جائے۔
پروگرام کی مہمان خصوصی میئر سنیوکتا بھاٹیہ نے کہا کہ مشاعرہ بیگم حضرت محل کے نام پر منعقد کیا جا رہا ہے، وہ ایک ایسی خاتون تھیں جنہوں نے انقلابی قدم اٹھا کر بہت اچھا کام کیا۔ انہوں نے ہمارے معاشرے کو خاص طور پر خواتین کو ایک راہ دکھانے کا کام کیا۔ خواتین کو جب بھی معاشرے میں موقع ملا ہے انہوں نے اپنا پرچم بلند کیا ہے۔ بیگم حضرت محل اپنے دور کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے عوام کے لیے قربانی دی۔ میں منتظمین اور تمام سامعین کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوئے۔
یوپی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اشفاق سیفی نے خطاب میں کہا کہ حضرت محل ایک انقلابی خاتون تھیں، وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پردہ نشین ہونے کے باوجود آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے اور انگریزوں کے خلاف جنگ کی۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بنانے میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہمیں ایسی خواتین کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ خواتین ملک کی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔
سید عرفان کچھوچھوی نے پیغمبر اسلام کی محبت میں کلام اس طرح پیش کیا۔
زندہ ہے جس کے دل میں محبت رسول کی،
جانے نہ دےگی یاد میں محبت رسول کی،
بیٹی غریب باپ کی بے موت مر گئی،
کچھ لوگ بھول بیٹھے سنت رسول کی ۔
انجنا سنگھ سینگر
سعادت کی شجاعت،
میں جھنڈا لے کر چلتی ہوں،
میں الہ آبادی ہوں۔
سانسوں میں گنگا لے کر چلتی ہوں۔
وطن سے پیار کا جذبہ نرالہ ہے
میں اپنے دل کی دھڑکن میں ترنگا لے کر ہوں۔
گل صبا فتح پوری نے اپنے اشعار میں کہا کہ...
ہم نشیں کوئی نہیں اور دلروبا کوئی نہیں
سانس کیا ٹھہری نہیں کہ اب کوئی پہچانتا نہیں،
جانے کیا کیف طاری ہے تمہارے شہر
مسکراتے ہیں سبھی اور بولتا کوئی نہیں۔
موجودہ حالات پر کلام پڑھتے ہوئے فاروق عادل نے کہا کہ
دست میں گل کھلاؤ تو جانیں
درد میں مسکراؤ تو جانیں
جس کا نشہ اتر نہ پائے کبھی
جام ایسا پلاؤ تو جانیں،
باپ کے دم پے عیش کرتے ہو،
چار پیسے کماؤ تو جانیں۔
ڈاکٹر منتظر قائمی نے ہندوستان کو سلام کرتے ہوئے عرض کیا کہ
کسی دن چاند کی دہلیز پر جب یہ جہاں ہوگا
وہاں پر ایک کونے میں ہمارا بھی مکاں ہوگا
محبت پیار کی خوشبو جہاں محسوس ہوتی ہو
سمجھ لو بس اسی جانب میرا ہندوستاں ہوگا۔
فلک سلطان پوری نے اپنے شاعرانہ انداز میں نظم پیش کرتے ہوئے کہا
میں اپنی تقدیر خود بناؤں گی،
دیش بھی ناز بیٹیوں پے کرے
کام کچھ ایسا کر دکھاؤنگی۔
علم ادب شعور کے سانچے میں ڈھلی ہوں
تہزیب کے گلشن کی نایاب کلی ہوں۔
’’ایک شام بیگم حضرت محل کے نام‘‘ کی کنوینر ڈاکٹر رضوانہ بیگم حضرت محل کے بارے میں تفصیلی معلومات دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انگریزوں کو شکست ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ بیگم حضرت محل نے آخری دم تک انگریزوں کے خلاف پوری قوت سے مقابلہ کیا لیکن شکست کا سامنا کرنے کے بعد انہیں مجبوری میں ملک چھوڑنا پڑا۔ آج بھی بیگم حضرت محل کی طرح پرعزم خواتین کی ضرورت ہے جو معاشرے کو ایک نئی سمت دکھا سکیں۔
پروگرام کی نظامت ہلال بدایونی نے کی۔ تورج زیدی (فخر الدین علی احمد چیئرمین)، ڈاکٹر شاداب عالم (ممبر اردو اکادمی لکھنؤ)، قمبر قیصر (ممبر اردو اکادمی لکھنؤ) رضا قاسم (ممبر اردو اکادمی لکھنؤ) مشاعرہ میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ شالینی سنگھ، گیانیندر سنگھ، شمشیر علی، صحافی سعید ہاشمی، صحافی عتیق اسلم، ڈاکٹر انجانا سنگھ، رضوان فاروقی، ڈاکٹر منتظر قائمی، علی بارابنکوی، سعید سندیلوی، مخمور کاکوروی شامل ہیں۔ شہر کے معزز سماجی کارکن جمال الدین خان، عبدالحلیم، ڈاکٹر شمشیر خان، محمد وسیم خان، محمد اظہر الدین خان، محمد اشرف، ڈاکٹر عباس مہندی، ڈاکٹر عباس مہندی اور حاضرین موجود تھے۔