پروفیسر خورشید نعمانی کے انتقال پر اظہار تعزیت

پروفیسر خورشید نعمانی کے انتقال پر اظہار تعزیت ردولی،ایودھیا : پروفیسر ڈاکٹر خورشید نعمانی کے انتقال سے اردو ادب کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔معلوم ہوکہ وہ لکھنو کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بچھلے کئی روز سے زیر اعلان تھے۔ لیکن ہفتہ کی دوپہر موت و زندگی کی کشمکش میں وہ زندگی سے ہار گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ مرحوم ردولی کے ایک روحانی اور علمی خاندان حضرت شیخ صفی الدین میں پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ صفی الدین سلسلۂ نظامی کے ایک اہم بزرگاور حضرت جہانگیر اشرف سمنانی کے خلیفہ تھے۔ جنکا شجرا نسب حضرت امام ابو حنیفہ سے ملتا ہے۔ اور نانہال عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ احمدعبدالحق علیہ الرحمہ سے جا ملتا ہے۔ بچپن کے ساتھی رہے پروفیسر شارب ردولوی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کو تعزیت پیش کی۔ انھوں نے کہا ہم لوگوں نے ایک ساتھ مخدومیہ اسکول (نیشنل ہائیر سکنڈری اسکول ) میں تعلیم حاصل کی.میں اورخورشید مشترکہ طور پر امتحان کی تیاری کرتے تھے۔ وہ ایک اچھے رسرچ اسکالر تھے۔انھوں نےکئی بیحد اہم کتابیں لکھیں۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ اورشبلی نعمانی پر خصوصی طور پر تحقیق کی۔ انکی تحقیقی کتابیں اور دارالمصنفین کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعظم گڑھ کا جو کنٹی بیوشن ہے اس کو جب تک خورشید نعمانی کی کتاب نہ پڑھی جائے تب تک سمجھا نہیں جا سکتا۔ وہ ممبئی یونیورسٹی میں استاد رہے۔ وطن کی محبت میں سبکدوشی کے بعد ردولی آگئے۔ اور آخر وقت یہیں رہے۔ انکے اچانک ا۔نقال سے میں صدمہ میں ہوں۔ درگاہ شیخ العالم کے سجادہ نشین شاہ محمد علی عارف عرف سبو میاں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ خورشید نعمانی مرے چچا، ماموں اور خالو سمیت بیکوقت تین رشتے تھے۔ فارسی ایسا لکھتے و بولتے تھے جیسے فارسی انکی مادری زبان ہو۔ تصوف پر انھیں خاصا عبور حاصل تھا۔ انکی تحریر کے بارے میں معروف شاعر کیفی اعظمی کہتے کہ اسے پڑھ بوسہ دینے کو دل کرتا ہے۔ آج انکا ہمارے درمیان سے چلا جانا بہت تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ انکی مغفرت فرمائے۔ آمین
جدید تر اس سے پرانی