...محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آبھی گئے
(مجاز کی یوم وفات پر خراج عقیدت)
ردولی،اجودھیا : اردو ادب کا ایک ایسا درخشاں ستارہ مجاز کی شکل میں ردولی سےنمودار ہواجس کے دلکش انداز بیاں کو ایک جادو کی شکل میں لوگ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ بس افسوس اس بات کا کہ عشق کی ناکامی کے سبب بہت کم عمر میں مجاز اس نا پائیدار دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔
ڈاکٹر سیدہ کائنات نے مجاز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا جو رومانیت اور تڑپ مجاز کی شاعری میں پائی جاتی ہے وہ شائد ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوئی ہو۔ اور اس کے ساتھ ہی جتنی کم عمری میں وہ لکھنو اور علی گڑھ کےمشاعروں کی زینت بنے وہ بھی ان کی انفرادیت ہے ۔ مجاز بڑے زندہ دل اور اردو شاعری کا ایک ایسا روشن ستارہ تھے جس نے بہت مختصر سی مدت میں اردو شاعری میں وہ مقام حاصل کیا جو رہتی دنیا تک ایک نظیر رہے گا ۔ مجاز اندھیری رات کے مسافر تھے وہ اس روشن ستارے کی مانند تھے جو چند لمحوں کے لیے اپنی تابانیوں اور شعلہ افشانیوں کے ساتھ اُبھرا ۔ اور اپنے نُور سے زمانے کو منور کر کے رخصت ہوگیا۔ اسرارلحق مجاز کو موت نے کچھ اور مہلت دی ہوتی یا اس ظالم شۓ نے ان کو کچھ دن اور جینے کا موقعہ دے دیا ہوتا تو کچھ اور جگمگاتے موتی اردو کے دامن میں آ جاتے مگر افسوس اس بےدرد نے ایک روشن چراغ کو ہم سے چھین لیا۔ لیکن اردو ادب میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
شاہدصدیقی نے کہا مجاز کی شاعری سیدھی دل میں اتر کر اپنا گھر بنا لیتی ہے۔ اپنی مختلف نظموں بلخصوص آوارہ نے انھیں وہ بلندی حاصل ہوئی جس کا لوگ تصور کرتے ہیں۔
ردولی کے محلہ نبی خانہ کےچودھری سراج الحق کے گھر ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۱ میں پیدا ہوئے۔ مجاز کی شاعری کا سلسلہ علی گڑھ سے شروع ہوا۔ تین مجموعے کلام آہنگ، شبتاب و ساز نو شائع ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ لکھا۔
یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
شہرتوں کے اس سلسلے نے فلمی دنیا تک پہونچایا۔ فلم شکایت اور'پنا کے کچھ گانے لکھے فلم غلامی و ٹھوکر میں آوارہ نظم کے کچھ بند فلمائے گئے۔ خواجہ احمد عباس کی فلم آسمان محل میں نظم مجبوریاں کے کچھ اشعار فلمائے گئے۔ شارب ردولی نے مجاز پر ایک مونو گراف بھی لکھا۔ سراج الحق نے اپنے نور نظر مجاز کو کھویا اور دنیا ادب نے ایک ایسے باکمال شاعر سے دنیا سے رخصت ہوتے دیکھاجو اردو ادب کو بہت کچھ دینے آیا تھا۔ دنیا کے کسی کے چلے جانے سے محفلیں سونی نہیں ہوتیں آنے جانے کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ پر کچھ ہستیاں ہوتی ہیں جنہیں لوگ اس قدر ٹوٹ کر چاہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کو مجاز نے اپنی غزل میں یوں کہا ہے۔
یہ رنگ بہار محفل ہے کیوں فکر ہے تجھکو اے ثاقی۔
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آبھی گئے۔
فائل فوٹو۔ اسرارالحق مجاز