صحافیوں کو ذمہ داری کے ساتھ قلم کے استعمال کا مشورہ
مانو میں پنڈت ہری ہردت فوٹو گیلری کا افتتاح۔پروفیسر عین الحسن کا خطاب
حیدرآباد، 17 جنوری (پریس نوٹ) میڈیا میں شامل افراد کو قلم کی طاقت سے بحسن خوبی آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اردو صحافت کو کمزور نہ سمجھا جائے کیونکہ اپنے بہترین صلاحیتوں کے بل بوتے پر اردو صحافت لڑکھڑاتی ہوئی انسانیت کے اندر انقلاب کی روح پھونک سکتی ہے۔ قلم ہی کے ذریعے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی آواز بلند کی تھی۔ اسی فلک شگاف قلم کے ذریعے مولانا نے ہندوستانیوں میں جذبہ آزادی کو بیدار کیا ۔ مولانا آزاد کی تحریر میں وہ اثر تھا جس نے سوتے ہوئے دماغوں کو جگادیا۔ آج طلبائے صحافت اور برسرکار صحافیوں کو بھی قلم کو ذمہ داری سے استعمال کرتے ہوئے لوگوں میں وہی جوش و ولولہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔“
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں ”پنڈت ہری ہردت فوٹو گیلری آف ہسٹوریکل اینڈ ریر نیوز پیپرس“ (پنڈت ہری ہر دت فوٹو گیلری برائے تاریخی و کمیاب اخبارات) کا افتتاح انجام دینے کے بعد آج پروفیسر سید عین الحسن ، وائس چانسلر نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ پنڈت ہری ہردت فوٹو گیلری میں قدیم اردو اخبارات، رسائل و جرائد کے تصاویر اور نقول شامل ہیں۔ شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں جاری دو صد سالہ جشن اردو صحافت کے سلسلے میں اس گیلری کا افتتاح عمل میں آیا تھا۔ جس میں جامِ جہاں نما ، پنجاب گزٹ، پیغام عمل، دکن گزٹ، معین الہند، نور الآفاق ، اخبار دار السلطنت، صبح دکن، سائنٹفک سوسائٹی اخبار، علی گڑھ؛ علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ؛ اخبار عام، احسان، لاہور اخبار، نظام الملک، مہذب، مقبول عالم بمبے اور رہبر دکن جیسے اخبارات کی تاریخی کاپیاں اور ان کے نقول موجود ہیں۔
اس نمائش کا معائنہ کرنے کے بعد شیخ الجامعہ نے طلبائے صحافت کو مخاطب کیا اور کہا کہ انہیں صحافت کو بطور خدمت پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق آج ہر شخص اپنی بات منوانے اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بات کو منوانے اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ قلم بھی ہے اور طلبائے صحافت کو اس کا صحیح استعمال آنا چاہیے۔
اس موقع پر پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار ؛ پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین؛ پروفیسر محمد فریاد ، صدر شعبہ؛ جناب سید حسین عباس رضوی، جناب محمد مصطفی علی سروری، جناب محمد طاہر قریشی ، جناب معراج احمد اور ڈاکٹر دانش خان بھی موجود تھے۔