جانئے کہاں لگا اردو دانشوران کا میلہ

یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کو اردو کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے:پروفیسر صفدر امام قادری اردو فاؤنڈیشن آف انڈیا اور نجب النسا میموریل ٹرسٹ کے تحت آل انڈیا اردو کانفرنس، ملک بھر کے دانشوروں کی شرکت لکھنؤ۔19 فروری (پریس ریلیز) اردو کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے، جہاں ہم سب مل بیٹھ کر اس کے مسائل کو حل کر سکیں۔ یہ بات پروفیسر صفدر امام قادری نے یہاں عارف کیسل ہوٹل میں منعقد آل انڈیا اردو کانفرنس میں اپنے کلیدی خطبے میں کہی۔ کانفرنس کا اہتمام اردو فاؤنڈیشن آف انڈیا اور نجب النسا میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے تحت کیاگیا تھا، جس میں ملک کی مختلف ریاستوں اور اہم یونیورسٹیوں سے آئے پروفیسرحضرات اور دانشوران نے شرکت کی اور اردو کی موجودہ صورت حال اور اس کی ترقی کے لئے مربوط لائحہ عمل کے تعلق سے اپنے خیالات کا
اظہار کیا اور مقالا ت کئے۔ نظامت کے فرائض پروفیسر عباس رضا نیر نے انجام دیئے۔ کانفرنس کا آغاز حافظ ابوظفر صدیقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ مسٹر باقری نے نظم پیش کی۔ کانفرنس میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین تورج زیدی اور اسلامک سٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور مولاناڈاکٹر یعسوب عباس نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ پروفیسر صفدر امام قادری نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیز اور کالجوں کے شعبہ اردو میں رابطہ کی بہت کمی ہے۔ اردو کے فروغ میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔انھوں نے کہا کہ ملک کے تمام شہروں میں غیراردو حلقوں میں ایسے مراکز کی ضرورت ہے جہاں اردو سکھائی جائے۔ مسٹر قادری نے زور دے کر کہا کہ اپنے حق کے لئے ہمیں اپنی آواز بھی بلند کرنی چاہئے۔ سرکاری اداروں، اردو اکیڈمیوں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے بجٹ میں اگرحکومت کمی کرے تو ہمیں ایک ساتھ آواز اٹھانی چاہئے، یہ ہمارا حق بھی ہے اور اردو سے محبت کا تقاضا بھی ہے۔ انہوں نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں اورکالجوں کے شعبہ اردو کی لیڈر شپ کمزور ہورہی ہے۔یونیورسٹیوں سے تخلیق کارکم اور نقاد و محقق زیادہ نکل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تخلیق پرتوجہ دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک سچائی ہے کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے اور اس سچائی کو بار بار دہراتے رہنا چاہئے۔ پدیم شری پروفیسر اختر الواسع نے صدارتی خطاب میں کہاکہ اردو کا منظر نامہ وہ نہیں ہے جو دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرکاروں کے سہارے کوئی بھی زبان کب تک زندہ رہ سکتی ہے،میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔جب تک اس ملک میں جانکی پرساد جیسے لوگ موجود ہیں تب تک اردو کی حد بندی نہیں کی جاسکتی۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین تورج زیدی نے ملک محمد جائسی ایوارڈ کا عدہ کیا۔ پروفیسر شارب رودولوی نے کہا کہ انسانی ذہنیت ہی اردو زبان کو پیچھے لے گئی۔ انھوں نے کہاکہ اردو کی بقا کے لیے ہم انجمنیں قائم کر کے اردو کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ جے این یو کے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت نے جس زبان کو وجود بخشا وہ صرف اور صرف اردو ہے۔ اردو رابطے کی زبان ہے اور دنیا میں سب سے تیزی سے مقبول ہونے والی زبان ہے، انھوں نے ٍکہا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کا سہارا لینا چاہئے، اس سے ہماری زبان میں مضبوطی پیدا ہوگی۔ اے ایم یو کے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ پروفیسر صدر امام نے اردو شعبوں میں رابطہ کمی کی جو بات کہی وہ صد فیصد درست ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے بعد اردو نصاب کی تیاری کے دوران رابطہ کی اس کمی کو بہت محسوس کیا گیا۔ مانو، حیدرآباد کے پروفیسر شمس الہدیٰ نے دکن میں اردو کی ادبی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کی نوودے ودیالیہ اور کیندریہ ودیالیہ کے طرز پر تلنگانہ میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ معروف نقاد حقانی القاسمی نے کہا کہ زبانیں جذباتی نعروں سے زندہ نہیں رہتیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو زبان کو بچانے کے لیے کوئی تحریک بچی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی زبان کو اس کے رسم الخط کے بغیر زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ سینئر صحافی عبدالماجد نظامی نے کہاکہ اردو زبان اس وقت تک نہیں مر سکتی جب تک ہماری امید اور حوصلہ نہیں مرتا۔ انھوں نے کہا کہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اردد اخبارات ورسائل کو خرید کر ضرورپڑھیں، تبھی ہم اردو کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ پروفیسر جانکی پرساد (دہلی)نے کہا کہ اردو زبان و ادب میں مسلمانوں کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہ کوئی ثابت کرنے والی چیز نہیں ہے۔ اردو زبان و ادب کا فروغ جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے۔ سید عباس رضوی (کشمیر) نے کہا کہ اردو کو فروغ دینے کے لئے ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ اردو زبان کی راجدھانی ہے۔ سینئر صحافی وائس آف امریکہ کے سہیل انجم نے کہا کہ اخباروں اور رسالوں کی تعداد میں کمی ہوتی جارہی جو باعث حیرت ہے، زبان وبیان کی خرابیاں اگر دور ہوجائیں تو سوشل میڈیا سے اردو کو بہت فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ بی ایچ یو کے ڈاکٹر محمد قاسم انصاری نے کہا کہ ہم اپنی مادری زبان کو بھولتے جارہے ہیں۔ مردم شماری میں ہمارا صحیح تناسب ہی نہیں ہے۔ مصطفیٰ علی خاں ادیب الہندی نے کہا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، اور ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہے۔ اگر یہ گھروں سے چلی جائے تو اسے بچانا مشکل ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سینئر استاد مولانا علاؤالدین ندوی نے کہا کہ اردو زبان کا مسئلہ قوم کی بقا کا ہے، ادب ہر انسان کی بنیادی ضرورت نہیں ہے لیکن زبان بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا فضیل ناصری (دیوبند)نے ہندوستان کے مدارس میں اردو کا تعلیمی نظام، کالی کٹ یونیورسٹی کیرالہ کے پروفیسر مبین الحق نے کیرالہ میں اردو کی صورت حال، ڈاکٹر حسان نگرامی نے طبیہ کالجوں میں اردو کی صورت حال، اے ایم یو کے ڈاکٹر قمر عالم نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب شاعری کے حوالے سے اور مولانا محمد توصیف عالم نے بہار میں اردو کا منظرنامہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مہدی حسن نے اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر پرویز ملک زادہ، ضرغام الدین، اویس سنبھلی، محمد سعید اختر، مجتبیٰ حسن صدیقی، مشکور عالم، احرار الحق، مولانا مطیع الرحمن عوف ندوی، مفتی منور سلطان ندوی، شاہد حبیب فلاحی، محمد مظہر الحق، ڈاکٹر شبنم رضوی، رفیع احمدمحمد جاوید اختر، ضیاء اللہ صدیقی، ڈاکٹر مسیح الدین خاں، ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر نزہت پروین، تبسم فاروقی، سہیل وحید، قاری رضی الدین، مولانا نوراللہ غیرہ سمیت سیکڑوں محبان اردو موجود رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی