شیدائے اردو۔ ڈاکٹر رام کِشن سماجی

شیدائے اردو۔ ڈاکٹر رام کِشن سماجی ( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی mb.9450191754, ) آج کے ماحول میں آنکھ کھولنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اب سے نصف صدی قبل کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان زندگی گذر رہی تھی۔ اسی نصف صدی نے خلوص اور محبت کے چشمے خشک ہوتے دیکھے، نفرت کی دیواریں بلند سے بلند تر ہوتے دیکھیں، صدیوں میں پروان چڑھی گنگا جمنی تہذیب کو سسکتے اور دم توڑتے ہوئے دیکھا۔جنکی محبتوں اور شفقتوں کے درمیان آنکھ کھلی اور شعور حاصل ہواان میں ایک نام ڈاکٹر رام کِشن سماجی کا ہے۔ بچپن میں ایک مسلم ہم جماعت دوست کے اچانک انتقال ہو جانے پراکلوتے بھائی کے غم میں گریہ وزاری کرتی ہوئی معصوم بہن کو دئے گئے قول کہ آج سے میں تمہارا بھائی ہوں، کو ستر سال سے زیادہ عرصے تک نبھانا، خوشی اور غم کے ہر موقع پر ، ہر تیوہار میں ایک بھائی کا فرض ادا کرنا ایسا ہے کہ زمانہ جسکی مثال شائد ہی لا پائے۔ بارہ بنکی صوبہ ¿ اتر پر دیش کا چھو ٹا ضلع ہو تے ہو ئے بھی بڑی اہیمت کا حامل رہا ہے یہاں بڑے بڑے صوفی بزرگ، دانش ور علماءاور شعراء نے اپنے فن میں عروج حاصل کیا ہے ضلع بارہ بنکی میں قصبہ کر سی مردم خیز ہو نے کے ساتھ ساتھ بڑا نامور قصبہ رہا ہے۔ اسی قصبہ کرسی میں ڈاکٹر رام کشن سماجی کی پیدائیش ۷۱۹۱ء میں ایک متوسط ویش خاندان میں ہوئی۔ وہ کرشن جنم اشٹمی کا دن تھا اسی لئے ان کا نام رام کشن رکھا گیا۔ والد کا سایہءعافیت بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا۔ تعلیم اور تربیت والدہ کی دیکھ ریکھ میں ہوئی جو نہایت سنجیدہ اور نیک دل خاتون تھیں اورعلم کی قدردان تھیں ، رامائین کا بیشتر حصہ انہیں زبانی یاد تھا۔ قصبے کے بزرگ استاد منشی رام لعل اور مولوی واحد علی کی معاونت سے تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ ۶۳۹۱ء میںمڈل کا امتحان پاس کیا، فارسی اور انگریزی زبانیں سیکھیں۔۰۴۹۱ء میں اعلی قابلیت کے کورس کی تیاری کے سلسلے میں’ ہماری شاعری، تنقیدِ شعر و شاعری، و موازنہ انیس و دبیر وغیرہ کتابیں مطالعہ میں آئیں اسی کے ساتھ شعر گوئی اور سخن سنجی کا شو ق پیدا ہوا۔اسی دوران کانگریس کی تحریک زوروں پر تھی آپ بھی بڑے بھائی جناب بھگوتی پرساد کے ہمراہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔بعد میں وہ منڈل کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور پھر صدر منتخب ہوئے۔آریہ سماج سے تعلق کی بنا پر انھیں عرف عام میں’ سماجی‘ کہا جانے لگا۔یہی لفظ شاعری میں انکا تخلص ٹہرا۔ سماجی صاحب اپنی شاعری کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔ ” میری شاعری کو یہ خوش نصیبی حاصل ہوئی کہ محترم جناب حافظ اطہر حسین صاحب امین کینال بسلسلہءملازمت کرسی تشریف لائے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ انکی ادب نوازی کی بنا پر قصبے میں ماہانہ طرہی نشست کا آغاز ہوا۔ نشستوں میں شرکت کا موقع ملا۔ برادرم مخلص و مہربان جناب ڈاکٹر علیم عثمانی صاحب اور عالی جناب چودھری محمد محمود صاحب کی سرپرستی بھی حاصل رہی، میں اپنا کوئی استاد نہ رکھتے ہوئے بھی مقامی ہم عصر سبھی شعراءحضرات کو استاد کا درجہ دینے میں خوشی محسوس کرتا ہوں جن کی صحبتوں سے میرے اشعار میں نکھار آیا۔“ ڈاکٹر رام کشن سماجی نہایت نیک دل، مخلص، سادہ مزاج اور وضع دار انسان تھے۔ کامیاب ہومیو پیتھ معالج تھے، دواخانے پر مریضوں کا اذدہام رہا کرتا تھا ۔ وہ غربت کا دور تھا۔ عام لوگ دوا علاج کے متحمل نہ ہوتے تھے اس لئے بطور انسانی ہمدردی وہ ناداروں سے دوا کی قیمت کے لئے اسرار نہ کرکے مفت دوا دیا کرتے تھے۔ اپنی انھیں خصوصیات کی بنا پر وہ قصبے اور قرب و جوار کی ایک قابلِ احترام شخصیت تھے۔ گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے ہر سال ہولی ملن اور عیدالفطر کے مواقع پر مشاعرہ منعقد کرتے ۔ ہولی ملن کے مشاعرے کے موقع پر روائیتی پکوان گجھیا سے اور عید ملن کے مشاعرے پر سِوئیوں سے شعراءاور سامئین کی طواضع کرتے۔ زندگی نہایت سادہ تھی عام طور پر لباس کرتا دھوتی ہوا کرتا تھا مشاعروں میں شیروانی اورچوڑی دار میں نظر آتے تھے۔ توازن کے قائل تھے اس سلسلے میں ایک دلچسپ لیکن باعثِ افسردگی واقعہ جو انہیں کی زندگی کے متعلق ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ ” میری شادی کو کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ اک روز میری چھوٹی بہن اور اہلیہ میں کچھ تکرار ہو گئی ، میں نے معاملہ جان لینے کے بعد غلطی پر ہونے کی وجہ سے چھوٹی بہن کو ایک تمانچہ لگا دیااس نے بہت واویلا مچایا،چنانچہ توازن قائم کرنے کے لئے ایک تمانچہ اہلیہ کو بھی لگا دیا ۔ انھوں نے ناراض ہوکر کبھی بھی کرسی نہ آنے کی قسم کھا لی اور ساری عمر اپنے مائیکے ’ ٹکیت گنج قدیم لکھنﺅ میں گذار دی“۔ اس طرح محض توازن برقرار رکھنے کی کوشس نے ان کی زندگی غیر متوازن کر دی اور ہر مہینے لکھنﺅ کا طواف مقدر ہو گیا۔ وہ اردو کے شیدائی تھے تمام ذاتی خط و کتابت اردو میں ہی کرتے ۔پچاس برسوں سے زائد عرصے پر محیط انکے شعری سرمائے کا زیادہ تر حصہ ضائع ہو گیا جس میں تحریکِ آذادی کے دوران کہی گئی نظمیں بھی شامل تھیں۔ آخری دور میں مخلصین کے بے حد اسرار پر اپنے دستیاب کلام پر مشتمل ایک مجموعہ ” گلدان“ ترتیب دیا ۔ اسمیں غزلیں ،نظمیں ،قطعات حمدیہ اور نعتیہ کلام شامل ہے۔ یوں تو سماجی صاحب نے نہ صرف اردو شاعری کی تمام اصنافِ سخن میں بلکہ ہندی کے گیت اور بھجن وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا نمایاں موضوع سخن اردو غزل ہی ہے۔گلدان کے دیباچے میں استاد الشعراء حضرت عزیز بارہ بنکوی نے کلام کی ستائیش کی ہے اور ڈاکٹر علیم عثمانی نے انکی شاعری کے متعلق اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔” سماجی صاحب چونکہ شروع سے آذاد دل و دماغ کے مالک رہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے کلام میں اردو شاعری کی روائیتی قیود سے جہاں مناسب سمجھا ہے اجتناب بھی کیا ہے اور اپنی ذاتی سوجھ بوجھ کی بنا پر حیرت انگیز تراکیب اور اختراعات بھی وضع کی ہیں۔“ مجموعے سے منتخب کچھ اشعار اس طرح ہیں۔ تھے میرتقی اور داغ مگر نظریں تھین سماجی حوروں پر اب ایسے گئے گذرے ہیں ہم انسانوں کی باتیں کرتے ہیں ٭ شمع نے پائی تھی پروانے کے دل ہی میں جگہ شمع کے سر پہ جگہ مل گئی پروانے کو ٭ لگی نہیں جسے دنیا یئے رنگ و بو کی ہوا تری ہی زلف طرح دار میں الجھ کے رہا ٭ ہیں نگاہیں کہیں دل کہیں ہے ربط دنیا میں شائد نہیں ہے ٭ صاف گوئی کی حد ہو گئی آپ سے روبرو آپ کے آئینہ کچھ نہیں ٭ راہِ الفت میں جب آپ رکھئے قدم جانب ِ کربلا دیکھتے جایئے سماجی صاحب سنجیدہ انسان تھے پرانی قدروں کے حامل، ہم نے انہیں بزرگی کے عالم میں دیکھا۔ عام طور پہ ہنسی مذاق میں شامل نہ ہوتے۔ ایسی گفتگو جس میں بڑے چھوٹے کا لحاظ نہ ہو ، نا پسند کرتے تھے۔ والد مرحوم سے عمر میں کافی بڑے تھے ایک بار راقم اپنے دو سال کے بیٹے راحیل کو لے کر حاضر ہوا، پوچھا کون ہے کہا میرا بیٹا، مشفقانہ انداز میں ڈانٹتے ہوئے بولے بد تمیز کہیں کے ، یہ نہیں کہ سکتے تھے کہ آپ کا پوتا ہے۔ عام طور پر چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے ۔خصوصاََ اپنے احباب کے اہلِ خاندان سے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ انکے قریبی دوست رہے مرحوم مولانا شعیب کے بیٹے عمران انواروی جو کہ پر مذاق آدمی تھے اور ان سے کافی انس رکھتے تھے ملنے آئے کہنے لگے ” اتنے اتنے جاڑے ہو گئے آپ کے انتقال کی بھی خبر نہیں آئی طبیعت بہت پریشان تھی اس لئے ملاقات کو حاضر ہوا“ سماجی صاحب نے اس مذاق کا جواب ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیا۔ مشیتِ یذدی کو کون جان سکتا ہے۔ ایک ہی ہفتہ کے بعد ۹۲ دسمبر ۶۹۹۱ء کو مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ عمران انواردی کو اپنے مذاق کا ملال رہا اور قصبے کو یہ احساس کہ ایک دولت تھی جو چھن گئی۔ ٭٭٭ ٭ اختر جمال عثمانی، دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی یو پی۔ انڈیا۔۱۰۰۵۲۲ . +919450191754 mbموبائیل۔۴۵۷۱۹۱۰۵۴۹
جدید تر اس سے پرانی