علم و عمل کی ایک جامع ہستی

*علم و عمل کی ایک جامع ہستی* از: *سید محمد عمیر حسینی ندوی* استاذ معہد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لئے *حضرت کا ایک جامع تعارف* *ماہر* فن جغرافیہ داں و تاریخ ادب عربی کی مایہ نازشخصیت، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق صدر،اور ندوۃ العلماء کے سابق ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شمار بلا کسی مبالغہ آرائی کے ملک و بیرون ملک کی اہم ترین علمی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ قدرت نے جہاں آپ کو وسعت نظری فہم وفراست ، رسوخ فی العلم کا وافر حصہ عطا کیا تھا، تو وہیں اس کو بروئے کار لا کر عہد حاضر کی ضرورتوں و تقاضوں اور حاجات کے مطابق دین و شریعت کو پیش کرنے کا ملکہ وجذبہ بھی الحمد للہ خوب بخشا تھا۔ اس طرح آپ نے اپنی فکر و نظر کو بھی کسی ایک خانے میں قید نہیں کیا تھا، اسی وجہ سے آپ کی فکر میں تنوع اور علمی زندگی میں ہم آہنگی ملتی ہے آپ جس خاندان کے چشم و چراغ تھے وہ خالص دینی تعلیم ، دولت باطنی کے ساتھ ساتھ ادب و انشاء ، شعر و شاعری، تاریخ و سیرت اور مراتب رجال وغیرہ کا خصوصی طور پر سنگم رہا ہے، آپ علم و عمل کی ایک جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے، آپ بنیادی طور پر ایک عالم دین تھے، آپ کی زندگی کا اصل میدان دعوت الی اللہ تھا، دینی وملی خدمات کے لئے آپ نے اپنا جو مزاج بنایا تھا وہ قابل تعریف ہی نہیں بلکہ فخر کے لائق ہے۔ آپ سماجی اور ملی کاموں میں طریقہ نبوت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے کہ مخاطب سے اس کی زبان و فہم کے مطابق گفتگو کی جائے۔ مولانا نذرالحفیظ ندوی ازهری صاحب رح ایک کتاب کے مقدمہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے رقم طراز ہیں: کہ مولانا کے سیرت نبوی کے گہرے مطالعہ کا عکس ان کے ہر امر پر نمایاں ہے۔ آپ گفتار ہی کے نہیں، بلکہ کردار کے بھی غازی اور مرد میدان تھے، علم کے ساتھ اللہ رب العزت نے آپ کو مومنانہ بصیرت بھی عطا فرمائی تھی جو آپ کے لئے ید بیضا کا کام کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ شعائر اسلام اور عقائد دینیہ پر جب بھی ملت کے حریفوں کی طرف سے حملہ ہوتا تو آپ اس کے سد باب کے طریقوں سے واقف کراتے رہتے تھے۔ *شخصی حالات* :- آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تکیہ کلاں رائے بریلی میں ۱۹۲۹ء میں زندگی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھا تھا۔ والد ماجد رشید احمد حسنی گلشن علم اللہی کے وہ لعل بدخشاں تھے جن پر نسبی اور خاندانی شرافتیں مدتوں سے سایہ فگن تھیں اور ان نسبتوں کو انہوں نے ہرسمت سے زندہ رکھا ہوا تھا۔ آپ رحمۃ اللّٰہ نے اپنے وقت کے ماہرین علم سے اکتساب فیض کیا اور ہر خوان علم سے خوب خوشہ چینی کی۔ آپ نے مولانا عبد القادر رائے پوری کو دیکھا، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے مواعظ و تبلیغ سے استفادہ کیا۔ حضرت مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں متعدد بار حاضر ہوئے لیکن خاص طور پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ کی زندگی پر جو گہرا اثر ڈالا ہے اس کے تذکرہ کے لئے یہ مضمون تو کیا کئی تصانیف ناکافی ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں آپ نے دار العلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی تکمیل کی اور ایک سال بعد مادر علمی میں عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے مسند درس پر جلوہ افروز ہوئے ۔ ۱۹۵۰ء میں حجاز مقدس کا سفر اپنے شیخ ومرشد حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری اور اپنے خال معظم و مربی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے ساتھ کیا ، جہاں امام حرم مکی شیخ عبد المہیمن مصری اور دوسرے علماء سے استفادہ بھی کیا۔ *تدریسی خدمات اور دیگر ذمہ داریاں* تجھ سے ہوا ہے آشکار بندہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز حجاز سے واپسی پر آپ ۱۹۵۲ ء میں ندوۃ العلماء کے ادیب دوم مقرر ہوئے ، اور ۱۹۵۵ء میں صدر شعبۂ عربی ادب اور ۱۹۷۰ء میں عمید کلیۃ اللغہ مقرر کئے گئے ، آپ نے عربی زبان وادب کی خدمت، نیز امت مسلمہ میں نئی روح اور نیا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ۱۹۵۹ء میں پندرہ روزہ جریدہ *الرائد* نکالنا شروع کیا، آپ کو زبان وادب کی انہیں خدمات کے نتیجہ میں ۱۹۸۱ء میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا، پھر کچھ عرصے کے بعد 1993ء میں دارالعلوم کے منصب اہتمام پر فائز کئے گئے اور سات سال اس اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینے کے بعد ۲۰۰۰ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حادثہ جانکاہ کے بعد ناظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں ان تمام ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے دیگر اور بھی کئی علمی، ادبی، تعلیمی و دعوتی اداروں کے سربراہ رہے، جن میں ہندوستان کی باوقار شہرت یافتہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر ، دار عرفات اکیڈمی کے صدر، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے صدر، رکن دار المصنفین اعظم گڑھ، سر پرست اعلیٰ "تعمیر حیات“ "پیام عرفات" " تعمیر افکار" ، مدیر اعلیٰ "کاروان ادب اسلامی“ لکھنو ۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک کے اداروں اور تنظیموں میں "عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کے نائب صدر، شعبۂ برصغیر اور ممالک مشرقیہ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے صدر، رکن آکسفورڈ سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز برطانیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ *تصنیفی خدمات :-* آپ علمی و قلمی دنیا میں بھی اپنی مثال آپ تھے، آپ کی تصنیفات کا مطالعہ متنوع سمتوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، آپ نے اردو عربی دونوں زبانوں کے دامن ادب کو مالا مال کیا ہے، جن میں سیرت ، تاریخ، ادب، جغرافیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں، آپ کی تحریر آسان، اسلوب شستگی و شگفتگی کا مرقع ہوتا ہے،آپ کا مخصوص طرز تحریر ہے جو دل و دماغ دونوں کی راحت کا باعث ہوتا ہے، اسلوب بالکل ساده و عام فہم ، نفس مضمون اتنا سنجیدہ اور علمی بیان اتنا سادہ اور پر کار کہ اس طرح لکھنا سب کے بس کی بات نہیں، با الفاظ دیگر مبدا فیاض نے آپ کو گونا گوں خصوصیات سے نوازا تھا، جس کا نتیجہ ہے کہ ہر میدان میں آپ کے اشہب قلم نے گل کاریاں کی ہیں۔ واقعات کی سچی تصویریں بنانے اور گونگے صفحات کو گویائی بخشنے کا فن آپ کو بخوبی آتا تھا۔ بقول شاعر: دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا آپ کی عربی اور اردو تصانیف کی مجموعی تعداد پانچ درجن سے زائد ہیں،(جب کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہم جیسے بے شمار شاگرد و فیض و تربیت یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ہے جو ہر میدان میں آپ حضرت کے فیض کو انشاءاللہ عام کریں گے اور آپ کے دعوتی مشن کو پورا کریں گے۔) مثلاً: فی ظلال السيرة، نقوش سیرت اور رہبر انسانیت جیسی کتابوں میں اگر آپ نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی دعوت دی ہے تو "حالات حاضرہ اور مسلمان" "عالم اسلام اور سامراجی نظام" جیسی تصانیف کے ذریعہ امت وسط کو اس کا صحیح مقام یاد دلایا ہے۔ "سمرقند و بخارا کی بازیافت" "جزیرۃ العرب" اور "مقامات مقدسہ" کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ آپ نے تاریخ کی بھول بھلیوں کی بھی کامیاب سیر کی ہے۔ "سماج کی تعلیم وتربیت" "مسلمان اور تعلیم" کے ذریعہ اصول تعلیم کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر بھی آپ نے کامیاب سفر طے کیا ہے۔ "الأدب الاسلامي وصلته بالحياة" میں ادب کا اسلام اور زندگی سے رشتہ بتایا گیا ہے اور یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ ادب اسلامی ہی وہ ادب ہے جو بے ادبوں کو ادب سکھانے کے ساتھ ساتھ ادب والوں کو بھی ادب سکھاتا ہے۔"مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی عہد ساز شخصیت" کی تالیف کے ذریعہ آپ نے ماضی کی آغوش میں سوئی ہوئی داستان کو آب حیات دیا اور گذرے ہوئے وقت کے بہت سے ان واقعات کو زبان دی جو صرف آپ کے علم میں تھیں اور جن کے آپ تنہا گواہ تھے۔ مزید تذکر ممکن نہیں: ع سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے خلاصہ کلام یہ کہ آپ کےخلوص ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ دل میں اترتا چلا جاتا ہے، آپ کے مضامین پڑھنے والوں کو مرعوب کرنے کے بجائے متاثر کرتے ہیں، بقول غالب: یہ تحریر کی لذت ہے۔ *مومنانہ فراست* "مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“۔ اس کا صحیح مصداق آپ کا ٹوکیو میں پڑھا جانے والا وہ مقالہ ہے جسے ۲۵ جون ۲۰۰۰ ء کے تعمیر حیات نے اپنے شمارے میں پیش کیا ہے جس کا یہ اقتباس باعث عبرت و نصیحت ہے اور مومنانہ فراست کی جیتی جاگتی مثال ہے ” جاپان اپنی صنعتی ترقی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے لیکن روحانی افلاس کا شکار ہے، اس خلا کو صرف اسلام ہی پر کر سکتا ہے"۔ غور کرنے کا مقام ہے آج سے تقریباً 23/سال پہلے جب آپ نے یہ مقالہ جاپان میں پیش کیا تھا تو کون کہ سکتا تھا کہ صنعتی ، مادی اور سائنسی ترقی کے میدان کا یہ بے تاج بادشاہ ۲۰۱۱ء کے ہلاکت خیز طوفان میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا اور اس کی ساری ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی ، مگر ایک مومن کی دوربیں نگاہیں مستقبل کے تاریک پردے کو چیرتی ہوئیں دنیا کو انجام سے باخبر کر رہی تھیں مگر "فان الذكرى تنفع المؤمنين" ایک اٹل حقیقت ہے، بھلا اپنی سائنسی ترقیوں پر اترانے والے دہرئیے نصیحتوں پر کیوں کان دھرتے جب تک کہ " فأرسلنا عليهم سيل العرم“ کا خدائی عمل دہرا نہ دیا جاتا۔ جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں *حرف آخر* غرض یہ کہ آپ کی شخصیت عالم اسلام کی محبوب ترین شخصیت تھی۔ آپ کی ذات عوام تو عوام خود حضرات علماء کے لئے بھی نمونہ درس تھی ، آپ کے علم وعمل کی ہم آہنگی اور آپ کے عالم باعمل ہونے اور ہر خاص و عام میں مقبولیت کا اندازہ نماز جنازہ میں ہر طبقہ کے لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت سے لگایا جاسکتا ہے سچ ہے۔ اللہ کے ایسے ہی نیک بندوں پر فقیری میں شہنشاہی کے اسرار کھلتے ہیں ۔ مصائب اور تھے پر دل کا جانا عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے۔ علم و تصوف، رشد و هدایت، وعظ و تبلیغ، درس و تدریس ، حکمت و موعظت تحریر وتقریر فن حدیث و تاریخ اور زبان وادب کا یہ سورج اپنی ضیا باریوں سے ایک عالم کو منور کر رہا تھا کہ اچانک اس کو گہن لگ گیا، ایسا لگا کہ امت مسلمہ تاریکی کی لپیٹ میں آگئی مگر مشیت کا فیصلہ یہی ہے اور اس کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنا ہی ہمارا ایمان ہے۔ ضرورت جتنی بڑھ رہی ہے صبح روشن کی اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جارہا ہے۔ Mobile No: 9598682386
جدید تر اس سے پرانی