غلط اطلاعات ساری دنیا کی جمہوریتوں کے لیے خطرناک: ڈیوڈ موئر مانو میں عثمانیہ یونیورسٹی

غلط اطلاعات ساری دنیا کی جمہوریتوں کے لیے خطرناک: ڈیوڈ موئر مانو میں عثمانیہ یونیورسٹی اور امریکی قونصل خانہ کے تعاون سے اردو صحافیوں کا ورکشاپ ۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کا خطاب حیدرآباد، 9 مئی (پریس نوٹ)دنیا بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ لوگوں کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں جو اطلاعات دی جارہی ہیں وہ درست ہیں بھی یا نہیں۔ ہندوستان اور امریکہ دونوں ہی بڑی جمہوریتیں ہیں۔ جمہوریت کی ترقی کے لیے صحیح اطلاعات انتہائی ضروری ہیں۔ جبکہ غلط و گمراہ کن اطلاعات ساری دنیا کی جمہوریتوں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی لیے اس ورکشاپ کے ذریعہ اردو ٹی وی صحافیوں کو اطلاعات کی تنقیح (فیکٹ چیک) کی تربیت دی جارہی ہے۔ تاکہ وہ جمہوریت کو اپنی صحافت کے ذریعہ مضبوط کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار جناب ڈیوڈ موئر، پبلک افیئرس آفیسر، امریکی قونصل خانہ ، حیدرآباد نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام ، شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت، عثمانیہ یونیورسٹی، اور امریکی قونصل خانہ، حیدرآباد کے اشتراک سے منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ میں کیا۔ ورکشاپ کا عنوان ”اردو صحافی غلط اطلاعات سے کیسے نمٹیں“ ہے۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ پروفیسر عین الحسن نے سابق صدر جمہوریۂ ہند اے پی جے عبدالکلام کا ایک قول دہراتے ہوئے کہا ”معلومات کا دور گزر چکا ہے اور اب یہ تجزیہ کا دور ہے۔ “ ہماری ذمہ داری ہے کہ یہ جانیں کہ جو اطلاعات و معلومات ہمیں فراہم کی جارہی ہیں، وہ صحیح ہیں یا غلط۔ اچھی ہیں یا بری ہیں۔انہوں نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اردو یونیورسٹی مولانا آزاد کی وراثت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جدو جہد آزادی کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے صحافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح مولوی محمد باقر جو ملک میں صحافت کے پہلے شہید ہیں نے اصول و اقدار پر مبنی صحافت کی مثال قائم کی۔ آج بھی یہ لوگ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ محترمہ بی سومتی، آئی پی ایس، ڈی آئی جی، ویمن سیفٹی، حکومت تلنگانہ، حیدرآباد نے کہا کہ غلط اطلاعات کے ذریعہ ہر کسی کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ اس لیے غلط و گمراہ کن اطلاعات سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گمراہ کن اطلاعات کے ذریعہ تنقیدی آوازوں کو دبانا، انہیں ہراساں کرنا، انہیں بدنام کرنا اور ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنا بے حد نقصاندہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مانو کے شعبہ جرنلزم کے 80 فیصد طلبہ کو صحافتی کیریئر کے آغاز کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سے یہاں کے کورسز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن تجدید علم بہت ہی ضروری ہے۔ اس طرح کے ورکشاپ موجودہ حالات کے لیے ضروری مہارتوں کی تربیت کرتے ہیں۔ پروفیسر اسٹیونسن کوہیر، صدر شعبہ¿ صحافت، عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ فرضی خبریں ، سچی خبروں کے مقابلے ڈیڑھ گنا تیزی سے پھیلتی ہیں۔ ایسے میں صحافیوں کے لیے اطلاعات کی تنقیح (فیکٹ چیک) ضروری ہوجاتی ہے۔پروفیسر اسٹیونسن نے لیڈ ٹرینر، یو سدھاکر ریڈی اور محمد عبدالباسط، میڈیا ایڈوائزر، یو ایس قونصلیٹ جنرل حیدرآباد کے تعاون سے فیکٹ چیکرس کے زیر عنوان تربیتی سیشن کے مختلف موضوعات کا خاکہ پیش کیا۔ پروفیسر محمد فریاد، ڈین و صدر ترسیل عامہ و صحافت نے کارروائی چلائی اور خیر مقدم کیا۔ پروفیسر احتشام احمد خان، ایم سی جے نے شکریہ ادا کیا۔ ؛ محترمہ امم نور، جاگرن، نئی دہلی بھی شہہ نشین پر موجود تھیں۔ بی اے کی طالبہ عظمیٰ صدف نے مہمانِ خصوصی کا تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر اردو صحافیوں کے لیے ”کارکردگی کے معیاری اصول“ کے زیر عنوان کتابچہ کی رونمائی بھی کی گئی۔ جناب کرشنا شاستری پنڈیالہ، سابق فارنسک سائنسداں، سی ایف ایس ایل، حیدرآباد؛جناب ایم اے ماجد، صدر تلنگانہ اردو جرنلسٹس، حیدرآباد؛ ریسورس پرسن نے مختلف سیشنوں میں شرکاءسے مخاطب کیا۔
جدید تر اس سے پرانی