شمسی مینائی : جرات اظہار علامت

شمسی مینائی۔جرا ¿تِ اظہار کی علامت ( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی Mb.9450191754) جناب شوکت علی علوی جنہیں عرف عام میں شمسی مینائی کے نام سے جانا جاتا ہے ، کا آبائی وطن قصبہ کاکوری ضلع لکھنﺅ تھا۔ لیکن ان کے والدین نے بستی ضلع میں سکونت اختیار کر لی تھی جہاں ۶۱ستمبر ۹۱۹۱ء کو انکی ولادت ہوئی۔ بعد میں معاشی وجوہات کی بنا پر والدین گونڈہ منتقل ہو گئے۔ اور یہیں ٹامسن کالج سے جو کہ اب بھگت سنگھ کالج کے نام سے مشہور ہے ۷۳۹۱ء میں شمسی مینائی صاحب نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔اسی کالج میں انکے استاد رہے عبدالعلیم بقائی نے لکھنﺅ کے بیت بازی مقابلے میں انکا برجستہ کہا گیا شعر سنا، یہ انکا پہلا شعر تھا۔ اے مصور خود چلے آئیں وہ دل کو تھام کر اس طرح جذبات کی اک دلشکن تصویر کھینچ بقائی صاحب جو کہ خود ایک کہنہ مشق شاعر تھے شمسی مینائی کی شاعرانہ صلاحیت کا اندازہ کر لیا اور انھیں شعر گوئی کی طرف راغب کرتے رہے اور اصلاح بھی دیتے رہے۔ اس طرح ان کی شاعری کی ابتدا گونڈہ سے ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جگر مرادآبادی کی شہرت ہندوستان بھر میں عام ہو چکی تھی اور گونڈہ ان کا مسکن تھا۔ شمسی صاحب اکثر انکی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے ۔ کئی مشاعروں میں جگر صاحب کی موجودگی میں انہوں اپنا کلام بھی سنایا۔ جگر صاحب مزاج شناس تھے، انہوں نے شمسی مینائی کو نظم گوئی کا مشورہ دیا۔ شمسی صاحب نے یہ مشورہ قبول کر لیا اور پورے انہماک سے نظم گوئی اختیار کر لی۔ اور بعد میں انکی نظموں سے ثابت ہوا کہ جگر صاحب کی رائے کتنی صائب تھی۔ شمسی مینائی صاحب کاگونڈہ کے بعد کافی عرصے تک گورکھپور میں قیام رہا۔ گورکھپو ر اس دور میںشعر و ادب کے لئے نہایت سازگار مقام تھا اور اسکو فراق گورکھپوری کے وطن ہونے کا شرف حاصل تھا۔ایسے ماحول میں شمسی صاحب کی شاعری پروان چڑھتی رہی۔ ملک آذاد ہو چکا تھا۔ وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انکے سیاسی حریف۔ حال آنکہ دونوں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی تھے لیکن ڈاکٹر لوہیا سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔شمسی مینائی ۸۴۹۱ء میں سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا میں ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور اپنی نظموں سے پارٹی کو مقبول عام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اگرچہ ڈاکٹر لوہیا کے ساتھ ان کے برادرانہ تعلقات تھے لیکن وہ بلا کی خودداری رکھتے تھے۔ ان کے معاشی حالات اطمینان بخش نہیں رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی سیاست کو مالی منفعت کا زریعہ نہیں بنایا۔ بے باکی اور جرائت مندی ان سے علامت تھے مصلحت اندیش نہ تھے، ظاہر ہے ان اوصاف کا حامل شخص سیاست میں کامیابی کی وہ منزلیں کس طرح طے کر سکتا تھا جن کا راستہ خوشامد اور چاپلوسی کے پڑاﺅ سے ہو کر گزرتا ہو۔انکا ذہن سوشلسٹ اصولوں کے تابع تھا، استحصال اور فرقہ پرستی کی مخالفت انکے مزاج میں تھی، ۰۵۹۱ء سے انہوں نے بارہ بنکی میں مستقل سکونت اختےار کر لی ، یوں تو گورکھپور کے قیام کے دوران وہ اپنی نظموں؛ بالے کا بیاہ،باغی کا نعرہ، نوجوانانِ وطن سے خطاب وغیرہ کے حوالے سے کافی مشہور ہو چکے تھے۔ انھوں نے ظلم، نا انصافی، توہمات اور فرقہ پرستی کو اپنے نشانے پر رکھا خاص طور پر فرقہ پرستی کے خلاف وہ تیغِ بے نیام تھے جس کا اندازہ انکی نظم ” فرقہ پرستوں سے دو دو باتیں“ کے ان اشعار سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ آذادیِ وطن کے لئے تم نے کیا کیا انگریز سے بتاﺅ کہیں مورچہ لیا قر با نیوں کا ذکر مسلسل سناﺅ تو سینے پہ کوئی زخم اگر ہو دکھاﺅ تو جب تھے غلام جاہ پرستی دکھا گئے آذاد ہو کے فرقہ پرستی پہ آگئے ہم سے وفا کی مانگ ہے جدت تو دیکھئے گاندھی کے قاتلوں کی یہ ہمت تو دیکھئے اسی سلسلے کی ایک اور نظم ” میں ہندوستان میں کیوں رہتا ہوں“ میں پاکستان کا تانہ دینے والوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اشعار ۔ اس واسطے نہیں کہ یہاں ظلم کم ہوا اس واسطے نہیں کہ کرم دم بدم ہوا اس واسطے نہیں کہ تعصب نہیں رہا ہر بات ہر نظر کا تعقب نہیں رہا اس واسطے کہ میں نے لیا ہے جنم یہیں ہر شوق ہر خیال ملا ہر قدم یہیں تنہا یہی نہیں کہ وطن ہے مرا وطن میں نے بھی اپنے خون سے سینچا ہے یہ چمن مرگ و کفن کے میل سے ڈرتا نہیں ہوں میں دار و رسن کے کھیل سے ڈرتا نہیں ہوں میں گذرے گی مجھ پہ جو بھی سہوں گا یہیں پہ میں تنہا بھی رہ گیا تو رہوں گا یہیں پہ میں جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے وہ روائتی مضامین کے طابع نہ تھے ان کا غور و فکر کا اپنا انداز تھا ۔ انسان دوستی ان کے مزاج کا حصہ تھی جس کا اظہار ان کی نظم ’ بھوک‘ میں ہوا ہے۔ اسکے علاوہ اپنے مشاہدات اور فطرت کے گہرے مطالعے کی بنیاد پر انھوں نے ہوا، مٹی اور پانی جیسے موضوعات پر خوبصورت نظمیں کہی ہیں۔ یوں تو شمسی صاحب نے قطعات اور غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ نظم کے شاعر ہیں اور نظم گو شاعر کی حیثیت سے مشاعروں میں انکو بے پناہ مفبولیت حاصل ہوئی۔ اپنے دور کے مشہور اور معروف اور مترنم شعراءانکے سامنے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جایا کر تے تھے۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا ملک کی تقسیم کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان کے مابین خوشگوار تعلقات چاہتے تھے اور دونوں ملکوں کی ایک فیڈریشن بنائے جانے کے خواہش مند تھے۔ انکی اس خواہش کو شمسی مینائی صاحب نے اپنی نظم ” ہندوستان پاکستان ایک ہوں“ میں الفاظ دئے ہیں۔ آپس میں رہیں برسرِ پیکار کہاں تک دیکھیں گے یہ جلتا ہو ا گلزار کہاں تک رک پائے گا سچائی کا اظہار کہاں تک ٹک پائے گی یہ جھوٹ کی دیوار کہاں تک بچھڑے ہوئے مل جائیں تمنا تو یہی ہے ہو جائے چمن ایک تقا ضہ تو یہی ہے اپنے تہذیبی ورثے اور ادبی رواےات پر ان کو فخر تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے ہمنوا نہ ہو سکے۔ ساحر لدھیانوی کی شاعرانہ عظمت اپنی جگہ، لیکن انکی نظم ”تاج محل“ ایک جہان میں جسکی دھوم تھی ، شمسی صاحب اسکو تاج محل سے وابستہ عوامی تصورات پر ایک ضرب کاری مانتے تھے۔ ان کے نزدیک تاج محل کی تعمیر کے محرکات نہ تو خواہشِ وصل اور بوالہوسی ہیں اور نہ ہی یہ حکومت اور دولت کا کارنامہ ہے یہ صرف لازوال محبت کے جذبے کا اظہار ہے۔ یہ رنگ تاج سے آخر مبین ہوتا ہے غمِ فراق بھی کتنا حسین ہو تا ہے غلط کہ تاج حکومت کا کارنامہ ہے یہ صرف حسن و محبت کا کارنامہ ہے یہ حکمِ شاہ سے محنت کشی کا کام نہیں یہ صرف ایک عمارت گری کا کام نہیں یہ کام خونِ جگر کا ہے کچھ ہوس کا نہیں یہ فن کا آخری پہلو کسی کے بس کا نہیں جہاں تک شمسی مینائی صاحب کی شعری خدمات کا تعلق ہے حفیظ جالندھری کے الفاظ صادق آتے ہیں کہ ’ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘۔ لیکن اس عرصے میں انہوں نے اپنا کلام یکجا کرنے یا اسکی اشاعت کی طرف توجہ نہ دی۔ ان کے سفرِ حج کے دوران ان کی اہلیہ جو کہ ایک باذوق خاتون تھیں اور انکی تخلیقات کاغذ کے پرزوں کی شکل میں سنبھال کر رکھتی آئیں تھیں ان کے کلام کو الماریوں ، کتابوں وغیرہ ساری ممکنہ جگہوں سے تلاش کر کے یکجا کیا اور واپسی پر انکو یہ تحفہ پیش کیا جو کہ انکے مجموعہ کلام کی اشاعت کی بنیاد بنا۔یوں غیر معمولی تاخیر کے بعد انکا مجموعہ کلام ” پر تو “ منظرِ عام پر آیا۔ عمر کے آخری حصہ میں مرض نسیان عود کر آیا تھا ۔آخر کار انہوں نے ۶۱ ستمبر ۸۸۹۱ءکو اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کا سفر اختیار کیا۔ وہ جرائتِ اظہار کی علامت تھے آج جب کہ فرقہ پرستی کے سائے زیادہ مہیب نظر آنے لگے ہیں ہمیں شمسی مینائی صاحب کے نظریات کو آگے بڑھانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اختر جمال عثمانی دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی یو پی۔ انڈیا۔۱۰۰۵۲۲ موبائیل۔۴۵۷۱۹۱۰۵۴۹
جدید تر اس سے پرانی