انگریزی (ENGLISH) کتاب اوراقِ ماضی سے کسی طرح کم نہیں

انگریزی کتاب اوراقِ ماضی سے کسی طرح کم نہیں شاہد حسین زبیری کی اردو تصنیف کے انگریزی ترجمہ کی رسم اجراء میں اے کے خان کا اظہار خیال حیدرآباد، میں نے انگریزی کتاب "Echoes from the Past" پڑھی ہے۔ وہ کسی بھی طرح اصلی کتاب ”اوراقِ ماضی“ سے کم نہیں ہے۔ اس کتاب کا تلگو ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ اگر شاہد حسین صاحب ترجمہ کروا لیتے ہیں تو میں اسے شائع کرواﺅں گا۔ ان خیالات کا اظہار سابق کمشنر پولیس حیدرآباد جناب اے کے خان (آئی پی ایس ریٹائرڈ) نے کیا۔ وہ ہفتہ کی شام اورراقِ ماضی کے انگریزی ترجمہ کی کتاب کی رسم اجراءکو مخاطب کر رہے تھے۔ جناب شاہد حسین زبیری، ٹرسٹی نظامس ٹرسٹ کی کتاب ”اوراقِ ماضی“ کا انگریزی ترجمہ ”Echoes From the Past“ کا اجراءسالار جنگ میوزیم کے تراب علی خان بھون آڈیٹوریم میں کیا گیا۔ پروفیسر آمنہ کشور نے اردو کی کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا۔ اپنی صدارتی تقریر میں جناب اے کے خان نے کہا کہ انہیں پرنس مکرم جاہ بہادر سے تین مرتبہ ملنے کا اتفاق ہوا۔ جب مکرم جاہ کے انتقال کی خبر ملی تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب چندر شیکھر راﺅ کواس کی اطلاع دی۔ وزیر اعلی نے جواب میں کہا کہ وہ ہمارے حکمران تھے۔ مکرم جاہ کی عزت و احترام ریاست حیدرآباد کے ہر ذی حیثیت شہری کرتا تھا۔ اس لیے ان کی آخری رسومات ایک حکمران کی طرح ادا کی گئیں۔ جناب شاہد حسین زبیری نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے مکرم جاہ کو جیسا دیکھا ان کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قارئین کے حوالے کردیا ہے۔ اس طرح اس کتاب کو میں نے پوری دیانتداری سے لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں کتاب کا ترجمہ پڑھ رہا تھا تو سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آمنہ کشور نے میری اردو کتاب کا ترجمہ کیا ہے یا میں نے انگریزی کتاب کا۔ اردو یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی میں انگریزی کی سابقہ استاد پروفیسر آمنہ کشور جو کتاب کی مترجم بھی ہیں نے کہا کہ ترجمہ خود ایک فن ہے۔ اس کی کامیابی یہ ہے کہ ایک زبان کی روح دوسری زبان میں منتقل ہو اور وہ اسی زبان میں ہونے کا احساس دلائے ۔ جناب ذوالفقار علی، ایم ایل اے چارمینار نے اس موقع پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ لوگ نظام پر بلا سوچے سمجھے تہمتیں لگاتے رہے ہیں۔ لیکن شاہد صاحب نے اپنی کتاب میں بتایا کہ کس طرح نظام ہفتم میر عثمان علی خان نے حیدرآباد کی ترقی میں حصہ لیا اور خصوصی طور پر تعلیمی ترقی کے لیے عثمانیہ یونیورسٹی کو قائم کیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو امداد دی اور بنارس ہندو یونیورسٹی کو اس سے بڑھ کر امداد دی۔ اسی طرح نواب مکرم جاہ کے خلاف لوگوں کی الزام تراشیوں کا بھی مصنف نے معقول جواب اپنی کتاب میں دیا ہے۔ انہوں نے مصنف کتاب کے حوالے بتایا کہ اسلامی کردار کے باعث مکرم جاہ کو شراب کس قدر ناپسند تھی۔ پروفیسر انور جہاں زبیری، سابق وائس چانسلر، کالی کٹ یونیورسٹی نے کہا کہ جب میں نے اردو کتاب پڑھی تو وہ اتنی دلچسپ تھی کہ میں نے اس کتاب کو شروع کیا تو دو سے تین نشستوں میں ہی مکمل کر لیا۔ ان کے مطابق شاہد حسین اپنے لفظوں سے کسی بھی واقعے کی تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ نئے لوگوں کے لیے انگریزی میں کتاب کی اشد ضرورت تھی جسے پروفیسر آمنہ کشور نے پورا کردیا۔ پروفیسر شگفتہ شاہین، او ایس ڈی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں یہ کتاب تاریخی اہمیت حامل ہے وہیں مکمل طور پر دلچسپ بھی ہے۔ کتاب کے ہر صفحے سے شاہد صاحب کی نواب مکرم جاہ سے محبت عیاں ہوتی ہے۔ اس موقع پر جناب منصور کشور نے بھی خطاب کیا۔ ممتاز صحافی جناب میر ایوب علی خان نے کارروائی چلائی۔ ابتداءمیں جناب سجاد شاہد، اردو مجلس نے خیر مقدم کیا۔ محترمہ روحی زبیری بھی شہ نشین پر موجود تھیں۔ جناب کاشف حسین زبیری، فرزند شاہد حسین نے شکریہ ادا کیا۔ قدسی رضوی اور صائمہ حسین نے شاہد حسین زبیری کی کتاب کے اقتباسات سنائے۔ اس موقع پر حاضرین کی کثرت کے باعث سالار جنگ میوزیم کا وسیع و عریض ہال بھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا۔
جدید تر اس سے پرانی