مولانا و علامہ نورمحمد شاہ (NOOR MOHD SHAH) طاب ثراہ

مولانا و علامہ نورمحمد شاہ طاب ثراہ (مبارکپوری) (اصل نام :شاہ نور محمد)22؍نومبر 1919 کو قصبہ مبارکپور، اعظم گڑھ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام مولاشاہ(اصل نام: مولابخش) تھا۔مولانا و علامہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ باب العلم مبارکپور سے حا صل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کے لیے سلطان المدارس، لکھنؤگئے جہاں سے انہوںنے صدر الافاضل کی سند حا صل کی اور پھر آپ نے مدرسۃواعظین کی طرف رخ کیاجہاں اپنی علمی صلاحیت اور فن تدریس کی مہارت کی بنیاد پر آپ کا شمار ممتاز طالب علموں ہونے لگا آخر کار انہوں نے ’’واعظ ‘‘کی سند حاصل کی۔مدرسۃ الواعظین کی جانب ہندوستان کے مختلف مقامات گجرات ، بلند شہر ، اورنگ آباد1975 میں تشریف لے گئے جہاں تقریباً20 برس تک خدمات انجام دیں ،قصبہ ہلور میں 1990سے 1992 تک امام جمعہ و جماعت اس کے علا وہ بریلی ، مظفر نگر ، میرٹھ وغیرہ اضلاع میں دین کی خدمات انجام دہی اوردرس و تدریس کے فرائض بھی انجام دینے کے لیے بھیجے گئے ۔ مولانا و علامہ نورمحمد شاہ طاب ثراہ کے دادا میر علی بخش کاآبائی وطن بحریہ آبادضلع غازی پور تھا۔ان کےا سلاف سید لال محمد گاؤں دھروارے جو قصبہ قاسم آباد کے پاس ہے ۔ وہاں سے بحر یہ آبادتشریف لائے اور پھر آخر میں میر علی بخش یہیںسے یک وتن تنہا تقریباًسن 1880مبارکپور تشریف لائے تھے اور وہیں تعلیم حا صل کی اور یہی کے ہوکے رہ گئے مولانا و علامہ نورمحمدشاہ طاب ثراہ کا خانوادہ آج بھی بحریہ آباد میں مقیم ہے ۔جہاں پرآج بھی آپ کے خانوادے کے تقریباً100 ؍ افراد اپنی زندگی اپنے روایتی انداز میں بسر کر رہے ہیں ۔ ان کےپو تے کے جناب سید منتظرمہدی عابدی صاحب بقول مولانا و علامہ نورمحمدشاہ طاب ثراہ (مبارکپوری) کا خانوادہ سادات ہےاورخود کو عابد ی سید تسلیم کرتے ہیں ۔ مولاشاہ ( مولابخش )کے تین فرزند سب بڑے جناب غلام محمد ، ان سے چھوٹے جناب حسن عسکری ، ان کے چھوٹے مولانا و علامہ شاہ نور محمد تھا۔ مولانا و علامہ نورمحمدشاہ طاب ثراہ (مبارکپوری)مجالس کم خطاب کرتے تھے مگر جب بھی خطاب کرتے منفرد انداز میں کرتے تھے ۔منفرد انداز ہی آپ کی خطابت کی پہنچان ہوئی۔مبارکپور کے لہجہ بلالی اور لحن داؤدی کے حامل تھے ۔ اذان بھی بہترین لحن میں دیتے تھے جب بھی اذان دی لوگوں مسجد کی طرف ملتفت ہوتے چلے تھے ۔ دلکش آوازاور مصائبی نیزپر درد آواز کے مالک تھے ۔ یہی پر درد آواز اور لہجہ ہی آپ کی سب سے ممتاز خصوصیات میں سے ایک تھی ۔ مجلس کے بعد حضرت امام حسینؑکی زیارت پڑھاتے درد ناک لہجہ میں پڑھاتے تھے زیارت کے دوران کی عزاداروں کی آنکھوں سے آنسو نکل جاتے تھے جن عزاداروں نے ان کی زیارت خوانی سنی ہے وہ آج بھی آپ کو سنہرے لفظوں میں یادکرتے ہیں۔ مولانا و علامہ نورمحمد شاہ طاب ثراہ (مبارکپوری) کے سب سے بڑے بھائی غلام محمد شاہ طاب ثراہ بہترین روضہ خواں تھے۔ مناقب اہل بیت علیہم السلام کو بہت اچھے ترنم سے پڑھتے تھے۔۔فن پہلوانی میں بھی بہت اچھی مہارت رکھتے تھے اور دوسرے بڑے بھائی حسن عسکری شاہ مرحوم بھی نہایت خوش الحان تھے ان کی اذان کو تمام اہلیان مبارکپور آج تک یاد کرتے ہیں دونوں بھائی بہترین اذان دیتے تھے مبارکپور ، اعظم گڑھ کی جمعہ مسجد میں ان کی اذانیں آج بھی باشندگان مبارکپور کے کانوں میں رس گھول رہی ہیں ۔مولانا مرحوم خوش پوشاک (ڈسریسنگ سینس )نہایت نفیس تھا۔ مولانا نور محمد شاہ طاب ثراہ خوش خورا ک اور لذیر طعام کے شوقین تھے۔ دعوت میں گوشت اور دیگر مرغن غذا ہوتی تو بڑے چاؤ سے تناول فرماتے تھے۔ ایک دفعہ مبارکپور میں کسی کے یہاں دعوت پر مدعو تھے ۔ دستر خوان پر تقریباً ہر طرح کے مرغن پکوان موجو دتھے ۔جب ان کی نظر دستر خوان پر پڑی تھی تو الحمداللہ کہا پھر جب نظر دال پر پڑی تو از راہ مذاق میں کہا: ’’خداوند عالم نے جب دستر خوان پر اتنی ساری نعمتیں دی ہیں تو آخر اس جوشاندہ کی کیا ضرورت تھی !‘‘ آپ مولانا محمدعلی مبارکپوری ابن بابائے قوم جناب علی حسن طاب ثراہ کے ہمعصر تھے۔ زندگی کے آخری رنگ آباد ضلع بلند شہرمیںتشریف لے گئےجہاں تقریباً 20 برس تک امام جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دیئے ۔وہیں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے27؍ جنوری1995ء کو صبح 8 بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کو بلند شہر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ مولانا و علامہ نورمحمدشاہ طاب ثراہ (مبارکپوری) کے تین فرزند ہیں: عمران احمد ، فرمان علی ،مولانا سلمان احمد صاحب جو وطن سے باہر دین کی خدمت میں مشغول تھے بہترین شاعر بھی کے علا وہ عربی میں بھی کلام کہنے پر قدرت و مہارت رکھتے تھے۔
جدید تر اس سے پرانی