فراق کی تصنیف ’اندازے‘ قابل مطالعہ کتاب:پروفیسرعالم اعظمی

فراق کی نثرنگاری ان کی شاعری سے اعلیٰ ہے:محسن خان فراق کی شعری ونثری تخلیقات اردو ادب کاسرمایہ:ایس رضوان اترپردیش اردو اکادمی کے اشتراک سے’فراق گورکھپوری شخصےت اورشاعری‘پرسمینار لکھنو ¿!29فروری، فراق کی تصنیف ’اندازے‘ قابل مطالعہ کتاب ہے،فراق نے اپنے آپ کوایک ایسے وقت میں شناخت دلوانے کی کوشش کی جب فانی ،جگر،اصغر،شادعظیم آبادی اورحسرت کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔فراق نے انگریزی ادب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی شاعری میں بھی اس طرزکو سمونے کی بھرپورکوشش کی،حالانکہ بہت سے لوگ فراق کی شاعری کوعظیم شاعری نہیں مانتے،مذکورہ خیالات کااظہاراترپردیش اردو اکادمی کے مالی اشتراک و امپیریل کمپیوٹر ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقدیک روزہ سمینار’فراق گورکھپوری شخصےت اورشاعری ‘میں ڈاکٹر فخر عالم (صدرشعبہ اردو خواجہ معین الدین چشتی لسانیات یونیورسٹی) نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کیا،مزیدانہوں نے فراق کی شخصیت اور شاعری پرسیرحاصل گفتگوبھی فرمائی، اورمقالہ نگاران کے مقالات پر مفیدتبصرہ بھی کیا۔ مذکورہ سمینار بلہرہ ہاو ¿س قیصر باغ ،لکھنو ¿ میں منعقد ہوا۔ مہمان خصوصی ایس۔رضوان سابق سکریٹری اترپردیش اردو اکادمی نے اپنے مخصوس لب و لہجہ میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فراق کی شعری ونثری تخلیقات کواردو ادب کاسرمایہ قراردیا،انہوں مقالہ نگاران کی تعریف کی اورحوصلہ افزائی فرمائی، اور امپیریل ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ کرائے گئے انتظامات کی بھی تعریف کی۔مہمان اعزازی معروف افسانہ نگاروناول نگارمحسن خان نے فراق گورکھپوری کی حےات وخدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں فراق عظیم شاعر نہیں بلکہ عظیم نثر نگار ضرور کہے جاسکتے ہیں،محسن خان نے فراق کے حوالے سے تفصیلی گفتگو
بھی فرمائی۔ مقالہ نگارضیاءاللہ صدیقی نے کہا کہ فراق نے عشقیہ شاعری کو آفاقی گونج دی،ان کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں بولتی ہیں، فراق صدی کی آواز تھے،ایک ایسی آواز جس میں دردوکرب،تڑپ،عیش وعشرت،محرومی ۔گھٹن،رواےت اورتجربہ سب کچھ شامل ہے۔ فراق کے بنیادی موضوعات حسن وعشق،انسانی تعلقات کی دھوپ چھاﺅں وغیرہ ہیں۔ دوسرے مقالہ نگارمحمدراشد خان نے کہا حقیقت یہ ہے کہ فراق نے اپنی غزلوں کو اپنے گہرے مطالعے، عمیق مشاہدے،لطیف احساس وجذبات،فکروخیال اورفن کی ندرت،تازگی،شگفتگی ،نادرتشبیہات واستعارات اورعلامات سے مالامال کیا۔ایک اورمقالہ نگارممتازاحمد نے کہا کہ فراق گورکھپوری نہاےت عظیم شخصےت کے مالک تھے،انہوں نے ادبی دنیا کو اپنی شعری اورنثری تخلیقات کے ذریعے بہت کچھ دی،ان کی شاعری اردو کی ادبی تاریخ کا درخشاں ستارہ تھی۔آخری مقالہ نگار نثار احمدنے کہا فراق مخلوط تہذیب پر یقین رکھتے تھے کیونکہ ان کی نظرمیں ہندوستان کسی ایک طبقے کانام نہیں بلکہ کثرت میں وحدت کا نام ہے،ان کی شاعری میں اصل ہندوستان کی تصویر صاف نظرآتی ہے۔ سیمینار کی شروعات سمینارکے ناظم عقیل احمد فاروقی نے اپنے مخصوص انداز میںسوسائٹی کے کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کی، مولانا عبدالصبورندوی نے صدرمحفل ڈاکٹر فخر عالم ، مہمان خصوی ایسرضوان،اورمہمان اعزاز ی محسن خان
اورمقالہ نگاران کا استقبال گل دستے پیش کرکے کیا ۔ آخرمیںسوسائٹی کی جانب سے مولانا عبد الصبورنے پروگرام میں آئے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔نظامت کے فرائض انجام دے رہے عقیل احمد فاروقی نے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیا۔سیمینار میں اکادمی اسٹاف کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اکادمی اسٹاف میں محمد فہیم ، ضمیر احمد ، محمدعامر ، محمد خورشید ،سید احترام حسین ،محمد فاروق ،محمد غفران ، معراج احمد،محمد عاطف اور پپو وغیرہ سیمینار کے اختتام تک موجود رہے۔اس کی اطلاع سوسائٹی کے نائب صدر ظل الرحمن نے دی۔ ظل الرحمن
جدید تر اس سے پرانی