قربانی کے سلسلہ میں بے بنیاد اعتراضات

سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر بار بار پیش کی جاتی ھے کہ قربانی پر ہر سال لاکھوں روپیہ ’’ضائع‘‘ہوتا ھے، اسے جانوروں کی قربانی کی بجائے رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ھے۔ اوّل یہ کہ جس چیز کا قرآن اور سنت سے حکمِ خدا ہونا ثابت ہو اس کے بارے میں کوئی مسلمان… اگر وہ واقعی مسلمان ھے… یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس پر مال یا وقت یا محنت صرف کرنا اسے ضائع کرنا ھے۔ ایسی بات جو شخص سوچتا ھے وہ ان سب سے زیادہ قیمتی چیز، یعنی اپنا ایمان ضائع کرتا ھے۔ دوسرے یہ کہ اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عام اور قومی ترقی کے کاموں کی بھی ایک قیمت ھے، مگر ان سے بدرجہا زیادہ قیمت اس کی نگاہ میں اس بات کی ھے کہ مسلمان شرک سے ہر طرح محفوظ ہوں، توحید پر ان کا عقیدہ ہر لحاظ سے خیال اور عمل میں مستحکم ہو، اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے کی عادت ان کی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑے رھے، اور وہ اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے مستعد رہیں۔ ان مقاصد کے لیے جن کاموں کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ضروری قرار دیا ھے ان میں سے ایک یہ قربانی بھی ھے. اس پر مال کا صرف رفاہِ عام اور قومی ترقی کے ہر کام سے بہت زیادہ قیمتی کام پر صرف ھے. اسے ضیاع صرف وہی شخص سمجھ سکتا ھے جس کی قدریں اسلام کی قدروں سے اصلاً مختلف ہو چکی ہیں۔ تیسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جس عبادت کی جو شکل مقرر کر دی ھے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی، الاّیہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ برحق نے خود ہی دو یا تین متبادل صورتیں تجویز کرکے ہمیں ان میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا ہو۔ ہمارا فرض ہر حکم کو اسی صورت میں بجا لانا ھے جو شارع نے اس کے لیے مقرر کی ھے۔ ہم خود مختار بن کر اس کا بدل آپ ہی آپ تجویز نہیں کرسکتے۔ نماز کی بجائے اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کر دے تو وہ ایک وقت کی نماز کا بدل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کی بجائے آپ خواہ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی کر ڈالیں، وہ عیدالاضحی کے تین دنوں میں جان بوجھ کر قربانی نہ کرنے کا معاوضہ ہرگز نہ بن سکے گی، بلکہ اگر یہ حرکت اس نظریے کی بنا پر کی جائے کہ اس عبادت کے لیے ہم نے خدا اور رسولؐ کی مقرر کر دہ صورت سے بہتر صورت تجویز کی ھے تو یہ نیکی کیسی، ایک بدترین معصیت ہوگی۔ پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’’ضیاع‘‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ھے جو اپنی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف نہ کرتی ہو۔ ان چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے انھیں ناپے اور روپے کے وزن سے انھیں تولے۔ آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہر سال جو بے شمار دولت ساری دنیائے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے یہ روپے کا ضیاع ھے. وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلا تامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوں میں تقسیم شدہ مسیحی ملت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ھے تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہندوؤں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ھے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ھے. اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندر وحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ھے. یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہو کر ایک قوم نہ بن سکیں۔ یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ھے جو دنیا کی مختلف قومیں وقتًا فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ھے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتا ھے، مگر کوئی قوم بھی اسے حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ بس ہسپتال، مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں۔ حالانکہ دنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ھے جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ھے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہر طرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ھے جتنی ہماری عیدیں ہیں۔ اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ھے جیسا ہمارے پاس ھے. اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کر چکے ہیں؟ اور یہ قربانی پر روپیہ ’’ضائع‘‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ھے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ھے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ھے جو ان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ھے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کر دیجیے، کیوں کہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہو رہا ھے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ھے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ھے اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔ (مسئلہ قربانی، از سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی