جذباتی بیانات اور نعرے مسائل کا حل نہیں





محمد قمر الزماں ندوی ہمارے قارئین اتفاق کریں یا نہ کریں ،لیکن ہمارا ماننا ہے کہ گرم گرم تقریروں،جذباتی بیانات اور نعروں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بگڑتے اور پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ سخت رد عمل اور چیلنج بھرا انداز یہ سیاسی لیڈروں کی اپنی مجبوری ہوتی ہے ،اسی سے ان کی سیاست اور ان کی لیڈری چمکتی ہے اور ان کی واہ واہ ہوتی ہے ،نیز ان کے حمایتی ان جذباتی نعروں اور تقریروں کی بنیاد پر اپنے ممدوح کو سب سے بہتر اور اعلیٰ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
  یقینا کبھی کبھی اور کہیں کہیں سخت لہجہ اور دھمکی آمیز رویہ اپنانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، لیکن ہر جگہ اور ہر موقع پر اس اسلوب اور لہجہ میں بات کرنے سے خود آدمی کی بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور ایسا شخص اپنے قد اور وزن کو بھی ہلکا کر لیتا ہے ۔ کتنے ایسے جذباتی اور گھن گرج والے مقرر ہیں، جو اب اپنی حیثیت،اہمیت اور وزن کھو چکے ہیں ۔ اس لیے جذباتی تقریروں ، بیانات اور نعروں سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا نتیجہ اور انجام بہتر نہیں ہوتا ۔ 
تاریخ سے بہت کچھ ہم سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ تاریخ کا مطالعہ سیکھنے کے ارادہ سے کیا جائے اور اس سے نتائج نکالنے کی کوشش کی جائے ۔ جس زمانہ میں بابری مسجد کا مسئلہ چل رہا تھا ،لکھنو سے قریب بارہ بنکی ضلع میں بعض جوشیلے گرم مزاج اور پرجوش مقرروں نے اپنی شعلہ بیانی سے ماحول میں اتنی حدت و شدت اور گرمی پیدا کردی کہ ایک بڑا فساد ہوگیا ،پولیس فائرنگ میں متعدد مسلمان شہید ہوگئے ، اس رات حضرت مولانا علی میاں ندوی رح دہلی جا رہے تھے ،گرم مقرروں کا وہی ٹولہ اسٹیشن پہنچا اور جاکر مولانا علی میاں ندوی رح سے بہادروں کی طرح نہیں بزدلوں کی طرح فریاد کی کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر پولیس ایکشن رکوائیے ،مولانا نے اس وقت جو جملہ ان سے کہا تھا، وہ سن لیجئے ،مولانا نے کہا ،، دوسروں کو تو آپ نے شہید کروا دیا ، خود شہید نہیں ہوئے ۔۔ ؟ (بحوالہ دعوت فکر و نظر 192)
اگر ایسے مقرروں اور جذباتی لوگوں سے اس طرح کی تقریروں اور بیانوں کے منفی اثرات پر گفتگو کریں گے تو وہ برملا یہی کہیں گے کہ پھر بزدلوں کی طرح سنتے رہیے ،ایسے لوگوں سے صرف یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ بہادر بن کر پٹنے سے بہتر ہے بزدل بن کر سن لیا جائے ۔۔ یاد رکھئیے جذباتیت کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے ،اس سے مسائل پیچیدہ بلکہ سنگین ہوتے ہیں ،مسائل سلجھنے کے بجائے بگڑتے ہیں ۔ اٹھارویں لوک سبھا الیکشن کے موقع پر مسلمان اور سنجیدہ برادران وطن نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ،جذباتیت سے دور رہے، تو ملک کا ماحول اور نقشہ بدل گیا، گودی میڈیا کا لہجہ بھی تبدیل ہوگیا، فسطائیت کمزور ہوئی ،غرور کا سر نیچا ہوا ،خدا کے لہجے میں بات کرنے والا حواس باختہ نظر آنے لگا ۔ اگر چہ نتجہ امید کے مطابق نہیں آیا، لیکن زہر بے اثر ضرور ہوا ۔ اب پھر وہ طاقت اس سنجیدہ کوشش اور مثبت محنت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں گرم گرم ماحول رہے ،نفرت اور تعصب کی فضا قائم رہے، تاکہ وہ اپنے عزائم اور منصوبے میں کامیاب ہوسکیں ۔ اگر ہم نے سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیا اور حکمت و دانائی سے ملک دشمن طاقتوں کو کمزور نہیں کیا تو پھر کشیدہ ماحول اور نفرت زدہ حالات پیدا ہو جائیں گے ۔۔ 
- اس وقت ہم مسلمانوں کو اس ملک میں جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہی طریقہ اور وہی حکمت اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا، جو مکہ کے اقلیتی مسلمانوں نے اپنایا تھا اور وہ کامیاب ہوگئے تھے ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جب خشک پہاڑوں سے گھرے مکہ نامی شہر میں ایک اقلیت صرف چار افراد پر مشتمل تھی ،ان میں بھی ایک خاتون اور ایک بچہ اس چار نفری اقلیت سے مختلف قبائل پر مشتمل وہاں کی اکثریت کو جو دشمنی گھرنا ،جلن ،تعصب اور نفرت تھی اس دشمنی اور نفرت کا دسواں حصہ بھی آج کسی ملک میں کسی بھی اقلیت اور اکثریت کے درمیان نہیں پایا جاتا ،لیکن چند سال ہی گزرے تھے کہ ماحول بدل گیا، کایا پلٹ گیا، اقلیت اکثریت میں بدل گئی اور ایسی بدلی کہ پھر آج تک کوئی اقلیت نہیں رہی ،کل تک جہاں سو فیصد کفر و شرک تھا آج وہاں سو فیصد اسلام ہے، اگر چہ مرور زمانہ سے کیفیت میں کمی آگئی ہے۔ کیا مکہ کی اس اقلیت کے تجربے کو اس ملک میں دہرایا نہیں جاسکتا ،کیا دشمنی کا جواب دوستی سے ،نفرت کا محبت سے بداخلاقی کا حسن اخلاق سے ،جھوٹ کا سچ سے ،سختی کا نرمی سے ،آگ کا پانی سے ،انتہا پسندی کا اعتدال سے ،جوش کا ہوش سے ،حق تلفی کا حق کی ادائیگی سے ،کڑوے بول کا میٹھے بول سے نہیں دیا جاسکتا ؟ بالکل دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے لیے نمونہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے صحابہ ہیں ،ہم ان نمونوں کو اپنانے کی کوشش کریں اسی میں ہماری مشکلات اور پریشانیوں کا حل ہے ۔۔ ( مستاد از کتاب دعوت فکر و نظر)
اگر ہم چاہتے ہیں وہی ماحول بن جائے وہی فضا قائم ہو جائے وہی انقلاب آجائے اور یہ اقلیت اکثریت میں بدل جائے اور پھر روز روز کا یہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے تو ہمیں مکی زندگی کی مشن کو تازہ کرنا ہوگا کیونکہ مکی زندگی دل کی زندگی ہے اور دل کا معاملہ بہت نازک اور مشکل ہوتا ہے ۔۔ ہم سوچتے ہیں کہ دل کی زندگی گزارے بغیر انعام و اکرام اور نصرت و مدد کی بارش شروع ہو جائے اور فتوحات کا سلسلہ جاری ہو جائے فضائے بدر کا سماں بندھ جائے، فرشتے نصرت کو اتر آئیں ، یہ ابھی اور اتنی جلدی مشکل ہے ۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے ایک موقع پر بہت دل کو لگنے والی بات کہی تھی ،انہوں نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ ہم اس دین کا اور اپنی اسلامیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ مسلمانوں کا معاملہ کرے ،اور وہ تمام وعدے پورے ہوں اور وہ تمام نتائج ظاہر ہوں ،جن کا تذکرہ اسلامی تاریخ میں ملتا ہے ،یہ ہماری بہت بڑی نادانی اور بھول ہے کہ ہم صورت سے وہ امید لگاتے ہیں جو امید حقیقت سے لگائی جاتی ہے ،جبکہ نتیجے ہمیشہ طبعی اور صحیح مقدمات کے تحت رونما ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ، پانی اگر واقعی پانی ہے تو سیراب کرے گا ،غذا اگر واقعی غذا ہے تو قوت پہنچائے گی ،دوا اگر واقعی دوا ہے تو شفا کی امید اس سے کی جائے گی ،لیکن کیا سراب سے پیاس بجھائی جاسکتی ہے ؟ کیا آگ کی تصویر سے گرمی حاصل کی جاسکتی ہے ؟ کیا بلب کے اشتہار سے روشنی کی امید لگائی جاسکتی ہے
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (دعوت فکر و نظر 196) ہماری ناکامی کی وجہ اور سبب یہی ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ صورت سے وہ نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں جو نتائج صرف حقائق سے نکل سکتے ہیں اور صورت نے ہمیں ہر جگہ دھوکہ دیا اور زندگی کے ہر میدان شکست سے دو چار کیا ،اگر ہم اسلام کی حقیقت کو لے کر میدان میں اترتے اور معرکہ آزما ہوتے تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی ،نتائیج کچھ اور نکلتے اور عظیم تاریخ ایک بار پھر ہمارے سامنے ہوتی ۔۔ مثل کلیم ہو! اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف

muslims
جدید تر اس سے پرانی